آیت 26
 

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَیَعۡلَمُوۡنَ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۚ وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَیَقُوۡلُوۡنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِہٰذَا مَثَلًا ۘ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا ؕ وَ مَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔اللہ کسی مثال کے پیش کرنے سے نہیں شرماتا خواہ مچھر کی ہو یا اس سے بھی بڑھ کر (چھوٹی چیز کی)، پس جو لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ (مثال) ان کے رب کی جانب سے برحق ہے، لیکن کفر اختیار کرنے والے کہتے رہیں گے کہ اس مثال سے اللہ کا کیا مقصد ہے، اللہ اس سے بہت سوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت کرتا ہے اور وہ اس کے ذریعے صرف بداعمال لوگوں کو گمراہی میں ڈالتا ہے۔

تشریح کلمات

یَسۡتَحۡیٖۤ:

( ح ی ی ) حیا، شرم۔ وہ اثر جو کسی نامناسب عمل کے سرزد ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ خدا شرم نہیں کر سکتا، لہٰذا خدا کی شرم سے مراد شرم کا لازمہ ہے۔ یعنی اگر کوئی کسی عمل پر شرم کرتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس عمل کو ترک کر دیتا ہے۔ لہٰذا اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ کا مطلب یہ ہو گا کہ خدا اس عمل کو ترک نہیں کر سکتا۔ یہی بات غضب و رضا اور محبت و کراہت میں بھی متصور ہوگی۔ یعنی اللہ کی رضا ’’ثواب دینا‘‘ اور اس کا غضب ’’عذاب دینا‘‘ ہے۔

ضرب المثل:

ضرب کا ایک معنی زمین پر چلنا ہے۔ چونکہ ”ضرب المثل“ شہرت حاصل کرنے کے بعد ایک مسافر کی طرح لوگوں کی زبان پر ہر وقت جاری و ساری رہتی ہے، اس لیے اسے ”ضرب المثل“ کہا جاتا ہے۔

بَعُوۡضَۃً:

چھوٹا مچھر۔

الۡحَقُّ:

(ح ق ق) ثابت۔ واقعیت، حقیقت۔ اگر ایک کلام واقع کے مطابق ہو تو کلام کو صدق اور واقعیت کو حق کہتے ہیں۔

فسق:

(ف س ق) نکل آنا۔ فسقت الرطبۃ عن قشرھا کھجور اپنے چھلکے یا خول سے نکل آئی۔ اسی لیے شریعت کی چار دیواری سے خارج ہونے والے کو فاسق کہا جاتا ہے۔

تفسیر آیات

شرم و حیا انسانی مزاج سے مربوط ہے اور خدا اس سے منزہ ہے، کیونکہ یہ ایک کیفیت ہے اور اللہ کیفیات سے ماوراء ہے۔ اس لیے یہاں خدا کی شرم و حیا کا مطلب اس کالازمہ ہے۔

بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ قرآن نے سورۂ عنکبوت میں مکڑی کے جالے کی مثال دی:

وَ اِنَّ اَوۡہَنَ الۡبُیُوۡتِ لَبَیۡتُ الۡعَنۡکَبُوۡتِ {۲۹ عنکبوت: ۴۱}

اور گھروں میں سب سے کمزور یقینا مکڑی کا گھر ہے۔

اور سورۂ حج میں مکھی کو بعنوان مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا:

اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَنۡ یَّخۡلُقُوۡا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجۡتَمَعُوۡا لَہٗ ۔۔۔ {۲۲ حج: ۷۳}

اللہ کے سوا جن معبودوں کو تم پکارتے ہو وہ ایک مکھی بنانے پر بھی ہرگز قادر نہیں ہیں۔

چنانچہ بعض یہودیوں نے طنزاً کہا کہ قرآن مثال کے لیے حقیر سی چیزوں کو منتخب کرتا ہے، جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ مچھر یا اس سے بھی کمتر چیز کی مثال پیش کرنے سے نہیں شرماتا۔ فَمَا فَوۡقَہَا ( فِی الصِّغَر ) یعنی اس سے بھی کمتر چیز کو مثال کے طور پر پیش کرے گا۔

یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا اس مثال کے ذریعے خدا گمراہ ہونے والوں کو گمراہ کرتا اور ہدایت پانے والوں کی ہدایت کرتا ہے۔ یعنی ہر شخص کو اس کی لیاقت کی بنیاد پر استحقاق ملے گا۔ گویا ایسی مثالیں ایک کسوٹی کی طرح ہیں، جن سے گمراہ ہونے والے اور ہدایت پانے والے جدا ہو جاتے ہیں۔

وَ مَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الۡفٰسِقِیۡنَ یعنی ان مثالوں سے خدا صرف فاسقوں کو ہی گمراہی میں ڈالتا ہے۔ قرآن مجید میں اس مفہوم کی بہت سی آیات ہیں۔ سورۂ نحل میں فرمایا:

یُّضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۔۔ {۱۶ نحل: ۹۳}

وہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔

سورۂ دہرمیں فرمایا:

وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ {۷۶ دہر: ۳۰}

اور تم نہیں چاہتے ہو مگر وہ جو اللہ چاہتا ہے۔۔۔۔

ان آیات سے بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ انسان اپنے اعمال و افعال میں مجبور و بے بس ہے اور سب کچھ اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔

۱۔ نظریۂ جبر: مذکورہ آیات کو دیکھ کر مسلمانوں کے ایک فرقے نے یہ نظریہ قائم کر لیا کہ انسان اپنے اعمال و افعال میں بے بس ہے۔ آگے چل کر اس ضمن میں تین نظریات سامنے آئے۔

الف۔اشاعرہ کا نظریۂ جبر: ان کا نظریہ ہے کہ بندہ کسی بھی قسم کے قصد و ارادے کامالک نہیں۔ اس کائنات میں صرف ارادۂ خدانافذ ہے اور ارادۂ خدا کے سامنے بندے کی حیثیت کاتب کے ہاتھ میں پکڑے قلم کی سی ہے۔ لہٰذا بندوں سے صادر ہونے والے افعال درحقیقت اللہ کے افعال ہیں اور ظاہراً بندے کے۔

ب۔ نظریۂ وحد ۃ الوجود: اس نظریے کے مطابق خالق اور مخلوق میں دوئی کا تصور ہی نہیں کہ بندے میں کسی قصد و ارادے کا تصور قائم ہو۔ جب کائنات میں صرف ایک ہی وجود ہے اور وہ ہے ذات باری تعالیٰ کا وجود اور باقی موجودات اس حقیقی وجود کی تجلیات ہیں تو اس کا ئنات میں جو کچھ رونما ہو گا، اسی وجود واحد کا کرشمہ اور اسی یکتا کارساز کا کارنامہ ہو گا۔

ج۔ نظریۂ علم خدا: اللہ تعالیٰ کو کائنات میں ہونے والے تمام واقعات کا ازل سے علم ہے۔ اگر کسی نے گناہ کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کا علم پہلے سے حاصل ہے۔ اس علم خدا کے مطابق عمل کا سرزد ہونا ضروری ہے، ورنہ علم خدا جہل میں بدل جائے گا۔بنا بریں اس جہان میں رونما ہونے والے اعمال کے بارے میں علم خدا علت تامہ ہے۔ تمام اعمال علم خدا کے مطابق رونما ہوتے ہیں، ان میں انسانی قصد و ارادے کو کوئی دخل حاصل نہیں۔

نظریۂ جبر پر آیات کے علاوہ یہ دلیل بھی قائم کی جاتی ہے کہ اگر اللہ کے قصد و ارادے کے ساتھ عبد اور مخلوق کا ارادہ بھی نافذ ہو تو شرک لازم آئے گا اور خدا کا چونکہ کوئی شریک نہیں ہے، اس لیے اس کے ارادے کے ساتھ کوئی اور ارادہ بھی نفاذ عمل میں شریک نہیں ہو سکتا۔

۲۔ نظریۂ تفویض: اس نظریے کے مطابق بندے کے افعال و اعمال خود اسی کے قصد و ارادے سے صادر ہوتے ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ کے قصد و ارادے کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ یہ نظریہ معتزلہ نے اختیار کیا ہے۔ اس پر متعدد قرآنی آیات سے استدلال کیا جاتا ہے مثلاً :

کُلُّ امۡرِیًٴۢ بِمَا کَسَبَ رَہِیۡنٌ ۔۔۔ {۵۲ طور: ۲۱}

ہر شخص اپنے عمل کا گروی ہے۔

فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ {۱۸ کہف : ۲۹}

پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔

آیات کے علاوہ ان کا استدلال یہ بھی ہے: اگر صرف ارادۂ خدا ہی سے یہ افعال صادر ہوں اور ان میں بندے کا ارادہ شامل نہ ہو تو بندہ ثواب و عذاب کا مستحق نہیں بن سکتا اور یہ بات عدل الٰہی کے خلاف ہے کہ ایک شخص کو گناہ پر مجبور بھی کرے اور پھر اسے سزا بھی دے۔

۳۔نظریۂ امر بین امرین: یہ شیعہ امامیہ کا نظریہ ہے۔ یعنی نہ جبر ہے اور نہ تفویض، بلکہ ایک تیسری صورت ہے، جس میں کسی حد تک ارادہ خدا بھی دخیل ہے اور ارادۂ عبد بھی۔

اس نظریے کے مطابق خدا عمل کی طاقت عطا کرتا ہے اور بندہ عمل کو ارادے و اختیار سے انجام دیتا ہے۔ بالفاظ دیگر عمل کی طاقت و صلاحیت خدا کی طرف سے ہے اور طاقت کا استعمال بند ے کی طرف سے ہے۔ تیسرے الفاظ میں طاقت اللہ کی طرف سے ہے مگر غیرمشروط اور انتخاب بندے کی طرف سے ہے۔ یعنی انتخاب کرنے میں بندہ آزاد ہے۔

توضیح مزید: اللہ تعالیٰ نے بندوں کو خلق فرمایا اورانہیں غیر مشروط طور پر نیک و بد اعمال انجام دینے کی قوت دی۔ یعنی اس طاقت کے ساتھ یہ شرط نہیں رکھی کہ اس خداداد قوت سے وہ صرف نیک اعمال بجا لائے گا اور نہ یہ کہ اس قوت سے برے اعمال انجام دے گا، بلکہ خدا نے تو ایک ایسی ذات خلق فرمائی ہے جو نیکیوں پر بھی قادر ہے اورگناہوں پر بھی اور اسی طرح مباحات بجا لانے کی قدرت بھی رکھتی ہے۔ البتہ نیکی اور گناہ میں فرق یہ ہے کہ ’’نیکی‘‘ کو بجا لانے کا اللہ نے حکم دیاہے، اس کی ترغیب دلائی ہے، وہ اس پر راضی ہے اور اسی نے ہی نیکی کرنے کی قوت بھی دی ہے۔ جب کہ ’’گناہ‘‘ سے روکا ہے، اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور اسے انجام دینے والے کے لیے عذاب مقرر کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان سے گناہ کرنے کی قوت سلب نہیں کی نیز ’’مباح‘‘ کے بجا لانے کی اجازت دی اور انجام دہی کی طاقت بھی عنایت فرمائی کہ چاہے تو انجام دے اور چاہے تو انجام نہ دے۔

احادیث

اس سلسلے میں حضرت علی علیہ السلام کا فرمان کس قدر جامع، دلکش اور حکمت آمیز ہے:

اَلتَّوْحِیدُ اَنْ لاَ تَتَوَھَّمَہُ وَ الْعَدْلُ اَنْ لَا تَتَّھِمَہُ فَالْقَائِلُ بِاَنَّہُ خَالِقٌ لِلْاَفْعَالِ فَقَد اِتَّھَمَہُ بِالْظُّلْمِ وَ الْقَائِلُ بِأَنَّہُ یُکَلِّفُ الْعَبَادَ مَا لَا یُطِیْقُوْنَ فَقَدْ نَسَبَ اِلَیْہِ الْقَبِیْحَ، وَ الْقَائِلُ بِاَنَّہُ لَا یَقْدِرُ عَلَی اَعْمَالِ عِبٰادِہِ وَ ان کل اَعْمَالَھُمْ بِاِرَادَتِھِمْ وَ لَا شَأنَ لَہُ فِیْھَا قَد اِتَھَمَہُ بِالْعَجْزِ ۔ {مواہب الرحمن ۱ : ۱۵۷}

توحید یہ ہے کہ انسان اللہ کو اپنے وہم و گمان کے دائرے میں نہ لائے۔ عدل یہ ہے کہ اللہ کو مورد الزام نہ ٹھہرائے۔ جو یہ کہے کہ اعمال کو اللہ خلق کرتا ہے تو اس نے خدا پر ظلم کا الزام لگایا اور جو یہ کہے کہ خدا غیر مقدور چیزوں کا حکم دیتا ہے تو اس نے خدا کی طرف قبیح کی نسبت دی اور جو یہ کہے کہ اللہ بندوں کے اعمال پر قدرت نہیں رکھتا، یعنی بندے سب اعمال خود اپنے ارادے سے بجا لاتے ہیں، ان میں اللہ کا کوئی عمل دخل نہیں تو اس نے اللہ کو عاجز ٹھہرایا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :

لَا جَبْرَ وَ لَا تَفْوِیْضَ بَلْ اَمْرٌ بَیْنَ اَمرین } بحار الانوار ۴ : ۱۹۷}

نہ تو جبر کا نظریہ صحیح ہے اور نہ ہی تفویض کا، بلکہ ان دونوں کے مابین ایک امر ہے۔

فقلت لہ یا ابن رسول اللہ (ص) فما امر بین امرین فقالوجود السبیل الی اتیان ما امروا بہ و ترک ما نہوا عنہ ۔ {بحار الانوار ۵ : ۱۱}

میں نے عرض کیا: فرزند رسول (ص) امر بین امرین کیا ہے؟ فرمایا: جن چیزوں کا حکم ہوا ہے ان کے بجا لانے کا اور جن چیزوں سے روکا گیا ہے ان کے ترک کرنے کا امکان موجود ہونا۔

امام علی علیہ السلام سے مروی ہے :

اذا کانت الخطیئۃ علی الخاطی حتماً کان القصاص فی القضیۃ ظلماً ۔ {متشابہ القرآن ۱ : ۲۰۱}

اگر خطاکار سے خطا سرزد ہونا قہری ہے تو پھر اس سے قصاص لینا ظلم ہے۔

أ تظن ان الذی نہاک دھاک ۔ {الطرائف ۲ : ۲۳۹}

کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ جس نے تجھے روکا ہے اس نے تجھے دھوکہ دیا ہے۔ (مجبور ہونے کے باوجود روکا ہے۔)

لو کان الزور فی الاصل محتوما کان المزور فی القصاص مظلوماً {بحار الانوار ۵ : ۵۸}

اگر جھوٹی گواہی دینا جبری طور پر سرزد ہوا ہے تو جھوٹی گواہی دینے والے سے قصاص لینا ظلم ہو گا۔

أ ید لک علی الطریق و یأخذ علیک المضیق ۔ {بحار الانوار ۵ : ۵۸}

کیا ممکن ہے کہ تجھے راستہ دکھایا جائے پھر تجھ پر راستہ بند کر دیا جائے۔

کل ما استغفرت اللّٰہ منہ فھو منک و کل ما حمدت اللّٰہ علیہ فھو منہ ۔ {بحار الانوار ۵ : ۵۸}

جس پر تو استغفار کرتا ہے وہ تیری طرف سے ہے اور جس پر تو اللہ کی حمد کرتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔

ما استطعت ان تلوم العبد فھو منہ و ما لم تستطع ان تلوم العبد علیہ فھو من فعل اللہ ۔ {الطرائف ۲ : ۳۳۰}

جس کام پر تو بندے کی مذمت کر سکتا ہے وہ اس بندے کی طرف سے ہے اور جس کام پر تو بندے کی مذمت نہیں کر سکتا وہ اللہ کی طرف سے ہے۔

ما کان من خیر فبأمر اللّٰہ و ما کان من شر فبعلم اللہ لا بأمرہ ۔ {متشابہ القرآن ۱ : ۲۰۱}

جو کار خیر ہے وہ امر خدا سے ہے اور جو شر ہے وہ علم خدا سے ہے، امر خدا سے نہیں۔

اہم نکات

۱۔ قرآنی مثالیں حق وباطل کی کسوٹی ہیں۔

۲۔ تخلیقی شاہکار جتنا چھوٹا ہوگا اہل بصیرت کی نگاہ میں وہ خالق کی قدرت و عظمت پر اسی قدر زیادہ دلالت کرے گا۔

۳۔ مسئلہ جبر و اختیار میں قرآنی نقطہ نظر یہ ہے کہ عمل کی طاقت اللہ کی طرف سے اوراس طاقت کااستعمال بندے کی طرف سے ہے۔

تحقیق مزید

الکافی ۱: ۱۵۵۔ تصحیح الاعتقاد ص ۴۳۔ قرب الاسناد ۳ : ۱۵۵۔ الکافی ۱ : ۱۵۹۔ الوسائل : ۴۳۔ الطرائف ۲ : ۳۲۹


آیت 26