قانون حلیت


ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ٭ ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰىہُنَّ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ ؕ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿٪۲۹﴾

۲۹۔ وہ وہی اللہ ہے جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پیدا کیا، پھر آسمان کا رخ کیا تو انہیں سات آسمانوں کی شکل میں بنا دیا اور وہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔

29۔ الٰہی تصورِ کائنات کے مطابق انسان مخدومِ کائنات ہے۔ وہ بندﮤ زر نہیں، نہ ہی اقتصادی عوامل اور پیداواری وسائل کا غلام ہے۔ خدائی انسان کو یہ خطاب ملتا ہے: جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، وہ سب تمہارے لیے مسخر کیا گیا ہے۔(45: 13) اس آیت سے منابع ارضی کی حلیت کا قانون ملتا ہے جس کی تفصیل فقہی کتب میں موجود ہے۔