آیت 28
 

کَیۡفَ تَکۡفُرُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ کُنۡتُمۡ اَمۡوَاتًا فَاَحۡیَاکُمۡ ۚ ثُمَّ یُمِیۡتُکُمۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡکُمۡ ثُمَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔اللہ کے بارے میں تم کس طرح کفر اختیار کرتے ہو؟ حالانکہ تم بے جان تھے تو اللہ نے تمہیں حیات دی، پھر وہی تمہیں موت دے گا، پھر(آخرکار) وہی تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

تفسیر آیات

مسئلہ حیات: زمین پر زندگی کی ابتدا کیسے اور کیونکر ہوئی؟ یہ ایک سربستہ راز اور پراسرار حقیقت ہے۔ اگرچہ انسان یہ جان چکا ہے کہ غیر نامیاتی عناصر سے نامیاتی مرکب کیسے تیار کیے جاتے ہیں، لیکن یہ راز ابھی تک سینۂ قدرت میں پنہاں ہے کہ یہ نامیاتی مرکبات کس طرح زندہ خلیے بن جاتے ہیں۔

زندگی ایک سربستہ راز ہونے کے علاوہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی ہے۔ توحید پر قائم ہونے والے دلائل میں سے ایک اہم ترین اور وزنی دلیل ہے۔ یہ دلیل چند مقدمات پر مشتمل ہے:

۱۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ مادہ ذاتی طور پر فاقد حیات ہے۔ یعنی خود مادہ ایک مردہ چیز ہے۔

۲۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حیات کا منبع حیات ہی ہے۔ یعنی کسی زندگی کی پیدائش زندہ چیز سے ہی ہو سکتی ہے۔ مثلاً اگر گوشت کو بیرونی حیاتیاتی دنیا سے منقطع اور الگ رکھا جائے تو اس میں کوئی زندگی (کیڑوں وغیرہ کی شکل میں) پیدا نہیں ہو گی۔ خلاصہ یہ کہ کوئی بے جان چیز کسی اور بے جان کو زندگی نہیں دے سکتی۔

۳۔ ایک اور طے شدہ حقیقت یہ بھی ہے کہ زمین اپنے ابتدائی دور میں قابل حیات نہ تھی۔ اس کا درجہ حرارت اتنا زیادہ تھا کہ کسی حیات کے لیے اس پر زندگی ممکن ہی نہ تھی۔ چنانچہ سائنسی طور پر ثابت ہوچکا ہے کہ ابتدا میں روئے زمین پر حیات نہ تھی، بلکہ بعد میں پیدا ہوئی۔

۴۔ دوسرے کرات سے زمین کی طرف زندگی کا منتقل ہونا بھی ممکن نہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ تھاکہ شاید بعض شہاب ثاقب دوسرے کرات سے زمین کی طرف زندگی منتقل کرنے کا سبب بنے ہوں۔ لیکن جدید سائنسی پیشرفت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ مفروضہ غلط ہے۔ تاہم جدید تحقیقات کے ذریعے اگر ثابت ہو جا ئے کہ زمین پر زندگی دوسرے کرات سے آسکتی ہے تو یہی سوال دوسرے کرات کے لیے بھی پیدا ہو گا اور وہاں بھی زندگی کا منبع لا محالہ زندگی ہی کو فرض کرنا پڑے گا۔

ان چار باتوں کے بعد یہ سوال سامنے آتا ہے کہ زندگی کہاں سے شروع ہوئی؟ اور روئے زمین پر زندگی کو کس نے پیدا کیا؟

کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ اس راز سے اب تک پردہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ زندگی کی کوئی توجیہ اب تک سامنے نہیں آئی، سوائے اس کے کہ ’’زندگی کو اللہ نے پیدا کیا‘‘۔

بعض اہل تحقیق کو اس قسم کا استدلال پسند نہیں ہے جو مجہولات پر مبنی ہو۔ چونکہ حیات ایک سربستہ راز ہے، اس کے وجود میں آنے کی فزیکل توجیہ معلوم نہیں ہو سکی تو اس مجہول کی جگہ اللہ کو رکھا جاتا ہے۔

چنانچہ قدیم انسانوں کو بہت سے مظاہر قدرت کا راز معلوم نہ تھا۔ مثلاً بارش، زلزلہ وغیرہ تو وہ اس مجہول راز کی جگہ اللہ کو رکھتے اور اس سے خدا کے وجود پر استدلال کرتے۔ آج راز منکشف ہونے کی صورت میں کیا یہ وجود خالق سے بے نیاز ہوتے؟ اگر کل راز حیات انسان پر منکشف ہو جائے تو کیا حیات، وجود خدا پر دلیل نہیں رہے گی۔

ہماری نظر میں راز حیات منکشف ہونے کی صورت میں یہ راز اس بات پر بہتر اور زیادہ واضح دلیل بنے گا کہ اس تخلیق کے پیچھے ایک ذی شعور ارادہ کارفرما ہے۔

چنانچہ ۲۶ جون ۲۰۰۰ ء کو انکشافات کی تاریخ کا اہم ترین دن قرار دیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ اس روز سینۂ کائنات میں پوشیدہ ایک راز ’’راز حیات ‘‘ سے پردہ اٹھ گیااور انسانی D. N. A Deoxyribo Nucleic Acid کا مخفف۔ میں تین ارب سالموں کی منظم ترتیب کے ذریعے جینیاتی کوڈ کا معمہ حل ہو گیا۔

تمام زندہ موجودات کے لیے جبلی ہدایات اللہ تعالیٰ نے خلیات (cells) کے مرکزی حصے D.N.A میں ودیعت فرمائی ہیں جو تین ارب نہایت چھوٹے سالموں پرمشتمل ہے اور حیات کا راز انہیں سالموں میں پوشیدہ ہے۔

واضح رہے کہ انسانی جسم کے اندر ۱۰۰ کھرب خلیات ہیں اور ہر خلیے میں ایک مرکزہ اور ۴۶ کروموسوم ہوتے ہیں۔ ہر کروموسوم ایک لمبے دھاگے کی طرح ہے، جس کی لمبائی چھ قدم ہے اور اسے خیط الحیات (زندگی کی تار) کہ سکتے ہیں۔ یہ دھاگہ ان جزئیات سے بنتا ہے جنہیں D.N.A یا زندگی کی بنیادی اینٹ کہتے ہیں۔ انسانی جسم کے ۱۰۰ کھرب خلیات میں موجود ان دھاگوں کو جوڑ دیا جائے تو آٹھ ہزار مرتبہ چاند سے ہو کر واپس آ سکتے ہیں۔ ہر D.N.A میں تین ارب سالمے موجود ہیں جن کی ترتیب و تنظیم سے حیات وجود میں آتی ہے۔

D.N.A کے کئی سیکشن ہوتے ہیں جنہیں جین (gene) کہتے ہیں اور جین ہی میں وہ بنیادی نقشہ ہوتا ہے، جس پر آگے چل کر انسان کی شخصیت کی عمارت استوار ہوتی ہے۔

انسان کو آگے جو کچھ بننا ہے یاجس بیماری میں اسے مبتلا ہونا ہے، وہ اس جین میں کمپیوٹرکے ایک کوڈ کی طرح ملفوف ہوتا ہے۔

ڈی۔ این۔ اے میں موجود تین ارب سالموں کی ’’منظم ترتیب‘‘سے وجود خالق پر ایک یقینی برہان وجود میں آتی ہے۔

چنانچہ ایک مغربی مفکر اسے یوں بیان کرتا ہے:

دس ٹوکنوں پر ایک سے دس تک نمبر لگائیں۔ پھر انہیں اپنی جیب میں ڈال کر خوب ہلائیں۔ اس کے بعد ترتیب کے ساتھ جیب سے نکالیں۔ جس ٹوکن کو جیب سے نکالا گیا ہے، اسے دوبارہ جیب میں ڈال کر ہلائیں پھر دوسری بار دوسرا ٹوکن نکالیں۔ اس طرح نمبر ایک ٹوکن اتفاقیہ طور پر نکلنے کا امکان دس میں سے ایک ہے اور ایک اور دو نمبر ترتیب سے نکل آنے کا امکان ایک سو میں سے ایک ہے۔ ایک، دو اور تین ترتیب سے نکل آنے کا امکان ایک ہزار میں سے ایک ہے۔ ایک، دو، تین اور چار کا ترتیب سے نکل آنے کا احتمال دس ہزار میں سے ایک ہے۔ ایک، دو، تین، چار اور پانچ کا ترتیب کے ساتھ نکل آنے کا امکان ایک لاکھ میں سے ایک ہے۔ اس طرح ایک سے لے کر دس تک ترتیب کے ساتھ اتفاقیہ طور پر نکل آنے کا احتمال دس ارب میں سے ایک ہے۔

چنانچہ تین نمبروں کا اتفاقاً ترتیب سے آنے کا امکان کم ہونے کی وجہ سے یہی ترتیب آپ کے بریف کیس کا تالہ بھی بن جاتی ہے۔

اس سادہ مثال کے بعد انسانی خلقت پر ایک نظر ڈالیں کہ انسان کئی ملین cellsکی ترتیب و ترکیب سے وجود میں آیا ہے۔ یعنی اربوں ٹوکنوں کو ترتیب کے ساتھ رکھنے سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ اب سوچئے کہ دس ٹوکن اتفاقیہ طور پر ترتیب کے ساتھ نکل آنے کے لیے اتفاقیہ کو دس ارب میں سے ایک حصہ ملتا ہے۔ اگر یہ ٹوکن کئی میلین ہوں تو ان میں اتفاقیہ کا حصہ کیا ہوگا؟ جواب صفر ہے۔

اب آپ غور فرمائیں کہ اگر ان اربوں ٹوکنوں میں سے ہر ایک ٹوکن کے اندر موجود ٹوکنوں کی تعداد تین ارب ہو تو ان کا اتفاقاً ایک ’’منظم ترتیب ‘‘ میں آنے کا امکان صفر سے کئی بار نیچے رہ جائے گا۔ اس سے یقین آ جاتا ہے کہ ان سالموں کے منظم ترتیب سے آنے کے لیے اتفاق کا کوئی امکان نہیں ہے،بلکہ اس کے پیچھے ایک قصد و ارادہ کار فرما ہے۔

یہاں ان جدید انکشافات پر قدیم سوال پھر لوٹ آتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انسان کی تمام صلاحیتیں اس کے cells میں ودیعت فرمائی ہیں تو نیک و بد ہونا انسان کے اپنے بس میں نہیں ہے، بلکہ انسان اپنے خلیوں میں اللہ کی طرف سے ودیعت شدہ خصوصیات کے تابع ہے۔ لہٰذا وہ مجبور ہے اور اپنے ارادے کے تابع نہیں ہے کہ خود مختار ہو جائے۔ یعنی اس سے خیرہ و شرہ من اللّٰہ یعنی نظریہ جبر ثابت ہوتا ہے۔

جواب یہ ہے کہ یہ خاصیتیں تقاضے کی حد تک ضرور مؤثر ہیں، جبر کی حد تک نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ خاصیتیں مقتضی ہیں، علت تامہ نہیں۔چنانچہ جدید تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ جمالیاتی ذوق، احسان دوستی، آگاہ طلبی اور خدا پرستی کے رجحانات انسانی فطرت میں ودیعت فرمائے گئے ہیں، لیکن اس کے باوجود انسان اپنے فطری تقاضوں اورجبلی رجحانات پر عمل کرنے پر مجبور نہیں ہے بلکہ وہ اس سے انحراف کر جاتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب فطری تقاضوں پر ان کے منافی خصائل غالب آجائیں۔ مثلاً ناداروں پر احسان کی جگہ یہ منفی رجحان غالب آجائے کہ غریبوں کا خون چوس کر بھی اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس قسم کے جبلی خصائل کی وجہ سے انسان کا عزم و ارادہ اورنیک و بد کی تمیز اس سے سلب نہیں ہوتی، بلکہ انسان کے اندر موجود منفی رجحانات کے مقابلے میں ایک مثبت رجحان فطرت کی طرف سے اس پر حجت پوری کر رہا ہوتا ہے۔ یہی مثال دوبارہ سامنے رکھیے کہ غریبوں کا خون چوسنے والے کے ضمیراور وجدان میں موجود ایک مخالف رجحان اس کی مذمت کرتا ہے اور اپنے ضمیر کی عدالت میں اسے سزا ملتی ہے، جسے ہم ضمیر کی ملامت کہتے ہیں۔

کَیۡفَ تَکۡفُرُوۡنَ میں طنزیہ استفہام ہے کہ یہ بات کس قدر نامعقول ہے کہ تم اللہ سے کفر اختیار کرتے ہو، جس نے تمہیں مردہ سے زندہ بنایا۔

اہم نکات

۱۔ زندگی (حیات) ایک سربستہ راز ہے اور اللہ کے وجود اور توحید کے محکم دلائل میں سے ایک اہم اور وزنی دلیل ہے۔

۲۔ حیات کی تخلیق صرف حیات ہی سے ممکن ہے۔


آیت 28