آیت 27
 

تُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ وَ تُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ ۫ وَ تُخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ تُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ ۫ وَ تَرۡزُقُ مَنۡ تَشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ﴿۲۷﴾

۲۷۔ تو رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے، اور تو ہی جاندار سے بے جان اور بے جان سے جاندار پیدا کرتا ہے اور تو جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے ۔

تشریح کلمات

تُوۡلِجُ:

( و ل ج ) کسی تنگ جگہ میں داخل ہونا اور بتدریج نفوذ کر جانا۔

تفسیر آیات

۱۔ تُوۡلِجُ الَّیۡلَ: شب و روز کے یکے بعد دیگرے آنے میں اس بات کی ایک بین دلیل موجود ہے کہ اس کائنات کی تخلیق کے پیچھے ایک ذی شعور ذات ہے۔ جس نے نہ رات کی تاریکی کو برقرار رکھا ہے اور نہ دن کی روشنی کو ہمیشہ جاری رکھا ہے، بلکہ ان دونوںمیں سے ہر ایک کو دوسرے میں داخل کیا، جس سے اس زمین پر زندگی ممکن ہوئی۔ اگر رات دن کا تبادلہ نہ ہوتا تو کرۂ زمین پر حیات ممکن نہ تھی:

یُقَلِّبُ اللّٰہُ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَعِبۡرَۃً لِّاُولِی الۡاَبۡصَارِ ﴿﴾ (۲۴ نور: ۴۴)

اللہ شب و روز کو بدلتا رہتا ہے، جس میں صاحبان بصیرت کے لیے یقینا عبرت ہے۔

وَ اٰیَۃٌ لَّہُمُ الَّیۡلُ ۚۖ نَسۡلَخُ مِنۡہُ النَّہَارَ ۔۔۔ (۳۶ یٰس:۳۷)

رات بھی ان کے لیے ایک نشانی ہے جس سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں۔

اس آیت کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرنے سے مراد مختلف موسموں میں رات کو گھٹا کر دن میں داخل کیا جاتا ہے اور کبھی دن کو گھٹا کر رات میں داخل کیا جاتاہے۔ اس طرح دن اور رات میں سے کچھ حصے کا تبادل ہوتا ہے اور مختلف موسم وجود میں آتے ہیں۔

۲۔ وَ تُخۡرِجُ الۡحَیَّ: دن اور رات کی آمد و رفت کا حیات کے ساتھ ایک گہرا ربط ہے، چنانچہ اس کے بعدفرمایاکہ وہ بے جان چیزوں سے جاندار پیدا کرتا ہے۔ جب کہ سائنسی نقطہ نظر سے بے جان مادے سے جاندار شے پیدا نہیں ہو سکتی، حیات کا منبع حیات ہی بن سکتی ہے۔ لہٰذا خدا ہی وہ ذات ہے جو بے جان سے جاندار پیدا کرتا ہے۔

اس آیت کی ایک اور تفسیر بیان کی گئی ہے، جس میں حیات سے مراد معنوی زندگی لی گئی ہے، یعنی ایمان و علم نیز موت سے مراد بھی معنوی موت لی گئی ہے، یعنی کفر و جہل۔ بنابریں اس کی تفسیر یوں ہو گی کہ اللہ نے بے جان (یعنی کافر و جاہل)سے جاندار (یعنی مومن و عالم) پیدا کیے، اسی طرح جاندار (یعنی مومن و عالم) سے بے جان (کافر و جاہل) پیدا کیے۔

۳۔ وَ تَرۡزُقُ مَنۡ تَشَآءُ: تو جسے چاہتا ہے رزق دیتا ہے۔ رزق کی تعریف یہ ہے کہ رزق اس عطیہ کو کہتے ہیں جو ضرورت اور احتیاج کو پورا کرے۔ خواہ وہ مال و دولت ہو یا علم و حکمت ہو یا جاہ و سلطنت۔ چنانچہ کہا جاتا ہے۔ رُزِقتْ وُلَداً ۔ مجھے بیٹا عنایت ہوا ہے۔

بذات خود رازق صرف اللہ کی ذات ہے۔

ہَلۡ مِنۡ خَالِقٍ غَیۡرُ اللّٰہِ یَرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ۔۔۔۔(۳۵ فاطر:۳)

کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو آسمان اور زمین سے تمہیں رزق دے؟

وَ اَنۡفِقُوۡا مِنۡ مَّا رَزَقۡنٰکُمۡ ۔۔۔۔ (۶۳ منافقون: ۱۰)

اور جو رزق ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرو۔۔۔

سورہ نساء آیت ۵ میں فرمایا:

وَ لَا تُؤۡتُوا السُّفَہَآءَ اَمۡوَالَکُمُ الَّتِیۡ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ قِیٰمًا وَّ ارۡزُقُوۡہُمۡ فِیۡہَا وَ اکۡسُوۡہُمۡ ۔۔۔۔

اور اپنے وہ مال جن پراللہ نے تمہارا نظام زندگی قائم کر رکھا ہے بیوقوفوں کے حوالے نہ کرو (البتہ) ان میں سے انہیں کھلاؤ اور پہناؤ۔۔۔۔

اس آیت میں لوگوں سے کہا ہے ان کو رزق دے دو۔ روایت میں آیا ہے: وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ یعنی و مماعلمناھم یبثون ۔ اس حدیث میں رزقنا کے معنی علمنا سے کیا ہے۔

۴۔ بِغَیۡرِ حِسَابٍ: بعض فرماتے ہیں کہ بِغَیۡرِ حِسَابٍ کا مطلب، بغیر عوض، استحقاق رزق دینا ہے۔ کافر، منکر اور مجرم کو بھی رزق دینا ہے، نہ اس کے عوض میں وہ شکر بجا لاتے ہیں، نہ وہ اس کے مستحق ہوتے ہیں۔

بعض اہل تحقیق کے نزدیک بِغَیۡرِ حِسَابٍ سے یہ معنی مراد لینا درست نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں مَنۡ تَشَآءُ کی قید ہے، جس کو تو چاہے بغیر حساب رزق دیتا ہے، نہ سب کو۔ جبکہ بغیر عوض و استحقاق جو رزق دیتا ہے وہ سب کو دیتا ہے، بلکہ ان کے نزدیک بغیر حساب کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ بعض کو اس کے عمل اور سعی کے مطابق رزق دیتا ہے، مگر بعض کو اس کے عمل اور سعی کے مطابق محدود نہیں، بلکہ بغیر حساب رزق دیتا ہے۔

احادیث

امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیہما السلام سے مروی ہے کہ بے جان سے جاندار اور جاندار سے بے جان پیدا کرنے سے مراد کافر سے مومن اور مومن سے کافر پیدا کرنا ہے۔ (المیزان: ۳:۱۶۶)

اہم نکات

۱۔ انسان کی حقیقی زندگی علم و ایمان سے عبارت ہے۔


آیت 27