آیت 26
 

قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَ تَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۫ وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ؕ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ ؕ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۲۶﴾

۲۶۔ کہدیجئے: اے اللہ! (اے) مملکت (ہستی ) کے مالک تو جسے چاہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہے حکومت چھین لیتا ہے اور تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے،بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

تشریح کلمات

الۡمُلۡکَ:

( م ل ک ) حکومت۔ بادشاہت۔ زیر تصرف چیز کو بذریعہ حکم کنٹرول کرنا۔

وَ تَنۡزِعُ:

( ن ز ع ) چھین لینا۔ کھینچ لینا۔ ایک دوسرے کو کھینچنا یعنی مخاصمت کرنا۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ: اس عاجزانہ مناجات میں توحید کا اعتراف ہے کہ پوری کائنات اللہ

تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ ایک طرف سے وہ کائنات کا خالق ہونے کے لحاظ سے سب کا مالک ہے:

لَّہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۔۔ (۲ بقرہ: ۱۱۶)

جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اس کی ملکیت ہے۔

جس طرح اللہ کی قوت تخلیق میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے، اسی طرح اس کی سلطنت، مالکیت اور بادشاہی میں بھی کوئی شریک نہیں ہے۔ دوسری طرف کائنات کی ہر شے اللہ کے فیض کے بغیر ایک لمحے کے لیے بھی اپنا وجود برقرارنہیں رکھ سکتی۔ لہٰذا کوئی شے اپنی ذات کی مالک نہیں۔ اللہ مالک الملک ہے۔ یعنی جن چیزوں پر دوسروں کا تصرف ہے، ان کا مالک حقیقی اللہ ہی ہے۔ یعنی اللہ کی مالکیت کسی کی طرف سے نہیں، اللہ کل کائنات کا بذات خود مالک ہے۔ اللہ کے علاوہ کوئی بھی بذات خود مالک نہیں ہے، بلکہ اللہ کی طرف سے مالک بنانے پر مالک ہوئے ہیں۔ چونکہ غیر اللہ کی ملکیت اس کی ذاتی نہیں ہے، اس لیے اس کی ملکیت قابل انتقال ہے۔

۔ اللہ کی مشیت۔ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ : اللہ جسے چاہتاہے بادشاہت اور حکومت دیتاہے اور جس سے چاہتاہے چھین لیتا ہے۔ اس میں ہر قسم کی حکومت اور بادشاہت شامل ہے۔ حق و باطل اور ظالم و عادل، تمام بادشاہتیں اللہ کی مملکت کے دائرے کے اندر موجود ہیں۔

واضح رہے اللہ کی مشیت عدم جبر پر قائم ہے کہ انسان کو اس کے قائم کردہ نظام علل و اسباب میں ڈال دیتا ہے اور حق و باطل کی رہنمائی کرتا ہے، پھر اپنے ارادہ و اختیار سے فیصلہ کرنے کاموقع دیتا ہے:

اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا﴿﴾ (۷۶ دھر: ۳)

ہم نے اسے راستے کی ہدایت کر دی، خواہ شکر گزار بنے اور خواہ ناشکرا۔

i۔ اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کو استحقاق و انتخاب کے لحاظ سے نعمت و حکومت سے نوازتا ہے۔ جیساکہ آل ابراہیم کو ملک عظیم عنایت فرمایا:

وَ اٰتَیۡنٰہُمۡ مُّلۡکًا عَظِیۡمًا (۴ نساء: ۵۴)

اور ان کو عظیم سلطنت عنایت کی۔

ایسی حکومت قابل تعریف و تمجید ہے۔

ii۔ کبھی اللہ کے بندے علل و اسباب اور اللہ کے عطا کردہ وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت، بادشاہت اور مال و دولت حاصل کرتے ہیں۔ یہ عمل بھی اس لحاظ سے اللہ کی طرف منسوب ہے کہ اس کے عطا کر دہ وسائل سے یہ مال و دولت یا حکومت و سلطنت حاصل ہوئی ہے۔

٭ اگر ان نعمتوں کو جائز مقام دیاجائے، حکومت سے عدل و انصاف اور مال و دولت سے احسان اور خدمت خلق کاکام لیا جائے تو ایسی دولت اور حکومت نعمت اور سعادت کا موجب بنتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:

وَ ابۡتَغِ فِیۡمَاۤ اٰتٰىکَ اللّٰہُ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ ۔۔۔(۲۸ قصص:۷۷)

اور جو (مال) اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر۔

٭ اگر ان نعمتوں کا غلط استعمال کیا جائے تو اس صورت میں مال و دولت اور حکومت انسان کے لیے نعمت و سعادت بننے کی بجائے عذاب بن جائیں گی۔ اس سلسلے میں ارشاد خداوندی ہے:

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ بَدَّلُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ کُفۡرًا وَّ اَحَلُّوۡا قَوۡمَہُمۡ دَارَ الۡبَوَارِ ﴿﴾ (۱۴ ابراہیم: ۲۸)

کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو ناشکری سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں اتار دیا؟

لہٰذا اس قسم کی دولت و حکومت کبھی موجب نعمت و سعادت اور کبھی موجب عذاب ہوتی ہے۔ خصوصاً ظالم حکمرانوں کو مہلت اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ عذاب الٰہی کے زیادہ سے زیادہ سزاوار ٹھہریں۔ اس صورت میں حکومت و سلطنت ان ظالموں کے لیے ابدی عذاب کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔

ایک واقعہ، ایک عظیم درس: یزید ملعون نے اپنے دربار میں اسیران اہل بیت علیہم السلام کے سامنے بطور طنز اس آیت کو پڑھا:

۔۔۔ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَ تَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۔۔۔۔

تو جسے چاہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہے حکومت چھین لیتا ہے۔۔۔۔

جواب میں جنا ب سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

وَ لَا یَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّمَا نُمۡلِیۡ لَہُمۡ خَیۡرٌ لِّاَنۡفُسِہِمۡ ؕ اِنَّمَا نُمۡلِیۡ لَہُمۡ لِیَزۡدَادُوۡۤا اِثۡمًا ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ﴿﴾ (۳ آل عمران: ۱۷۸)

کافر لوگ یہ گمان نہ کریں کہ ہم انہیں جو ڈھیل دے رہے ہیں وہ ان کے لیے بہتر ہے، ہم تو انہیں صرف اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں تاکہ یہ لوگ اپنے گناہوں میں اور اضافہ کر لیں، آخرکار ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہو گا۔

لہٰذا اللہ کی مشیت ایسی نہیں جو حکمت اور فلسفے سے عاری ہو کہ بلا وجہ جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے حکومت چھین لے، بلکہ اللہ بعض لوگوں کو بطور استحقاق، بعض کو بطور آزمائش و امتحان اور بعض کو بطور عذاب یہ نعمت دیتا ہے۔

۳۔ وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ: عزت اس حالت کو کہتے ہیں، جس تک پہنچنا آسان نہ ہو۔ اس لیے نادر چیز کو عزیز الوجود کہتے ہیں اور جس پر غالب آنا مشکل ہو اس کو بھی عزیز کہتے ہیں۔ ناقابل تسخیر کو عزیز کہتے ہیں۔

عزت کا بذات خود مالک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے: اِنَّ الۡعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا ۔ (۱۰ یونس: ۶۵) لہٰذا واقعی اور حقیقی عزت کی مالک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کے بعد اللہ جس کو عزت دے، وہ بھی عزت کا مالک ہوتا ہے لیکن یہ عزت اس کی ذاتی نہیں ہے، بلکہ خدادادی ہے۔

۴۔ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ: جس کو اللہ عزت نہ دے، وہ ذلیل ہے۔ چونکہ عزت صرف اللہ کے پاس ہے، غیر اللہ کے پاس اللہ کی طرف سے عزت آئے تو عزیز ہوتا ہے، ورنہ اپنی اصلی حالت، یعنی ذلت پر برقرار رہتا ہے۔

۵۔ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ: بھلائی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ ہر حالت میں خیر و بھلائی اسی کے ہاتھ میں ہے، خواہ نعمتیں دے، خواہ سلب کرے۔ چاہے تو کسی کو عزت دے یا ذلیل کر دے۔ ان سب میں مثبت پہلو صرف خیر کا ہے اور ان کا منفی پہلو شر ہے، جو اللہ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا۔ اللہ کی طرف صرف مثبت پہلو منسوب ہوتاہے۔ مثلاً عزت دینا اللہ کی طرف سے ہے جو خیر ہے، نہ دینا عدم ہے اور یہ عدم اللہ کی طرف منسوب نہیں ہوتا، کیونکہ عدم، تخلیق نہیں ہے۔ اس جگہ خیر و شر کا نظریہ رکھنے والے صریح قرآن کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں: بِيَدِكَ الْخَيْرُ کے بعد و الشر محذوف ہے۔

شر کیوں خلق ہوا؟: یہ بات نہایت قابل توجہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز کا ذاتی پہلو خیر ہی خیر ہے اور یہ پہلو اللہ تعالیٰ کا تخلیقی پہلو ہے اور شر اس کا معروضی پہلو ہے۔ مثلاً پانی کا ذاتی پہلو خیر ہی خیر ہے اور معروضی پہلو یہ ہے کہ کبھی اس میں انسان غرق ہو کر مر جاتا ہے تو یہ پہلو اللہ کا تخلیقی پہلو نہیں ہے۔ یعنی اللہ نے پانی کو حیات کے لیے بنایا ہے، غرق کے لیے نہیں۔ اگر اس میں کوئی انسان غرق ہوتا ہے تو یہ اس کا ایک معروضی پہلو ہے، جو پانی کی غرض تخلیق سے مربوط نہیں ہے۔ اسی طرح سانپ، بچھو وغیرہ میں موجود زہر کا مثبت پہلو خیر ہے۔ چنانچہ اس پہلو سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے۔ اگر کسی منفی پہلو سے ضرر پہنچتا ہے تو یہ اس کا معروضی پہلو ہے۔

ثانیاً ارتقا پذیر طبیعیات میں نقائص کا ہوناایک ضروری امر ہے۔ ارتقا کے درجات میں سے ہر درجے میں ایک نقص اور ایک کمی لازمی چیزہے،کیونکہ اگر یہ نقص نہ ہوتا تومادہ جامد اور ساکن ہوتا اور یہاں کوئی سبقت، رونق اور تحرک نہ ہوتا، بلکہ ایک جامد، خاموش اور بے رونق بلکہ بے معنی نظام ہوتا۔

لہٰذا کائنات اور ہماری مثال اس راہرو اور اس عمارت کی سی ہے، جسے منہدم کیا جا رہا ہو اور گزرنے والا دیکھ کر یہ اعتراض کرے کہ اس خوبصورت عمارت کو کیوں گرایا جا رہا ہے، جب کہ وہ ا س کے ماضی کے بارے میں علم نہیں رکھتا کہ یہ عمارت بہت بوسیدہ ہو چکی ہے اور ایک دن یہ عمارت خود اس پر بھی گر سکتی ہے اور نہ ہی مستقبل پر اس کی نظر ہے، ممکن ہے اسے ایک علمی مرکز میں تبدیل کرنے کے لیے منہدم کیا جا رہا ہو۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی مشیت اندھی بانٹ نہیں ہوتی۔ وہ کچھ لوگوں کو از روئے احسان اور کچھ کو از روئے انتقام نعمت و حکومت عطا فرماتا ہے۔

۲۔ اللہ ہر شے کا حقیقی مالک ہے اور اس کے فیض کے بغیر کوئی شے ایک آن بھی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی: مٰلِکَ الۡمُلۡکِ ۔۔۔۔

۳۔ شرا ور آفت مادی اشیاء کی ناقص ذوات کا لازمہ ہیں۔


آیت 26