آیت 30
 

یَوۡمَ تَجِدُ کُلُّ نَفۡسٍ مَّا عَمِلَتۡ مِنۡ خَیۡرٍ مُّحۡضَرًا ۚۖۛ وَّ مَا عَمِلَتۡ مِنۡ سُوۡٓءٍ ۚۛ تَوَدُّ لَوۡ اَنَّ بَیۡنَہَا وَ بَیۡنَہٗۤ اَمَدًۢا بَعِیۡدًا ؕ وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفۡسَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ رَءُوۡفٌۢ بِالۡعِبَادِ﴿٪۳۰﴾

۳۰۔ اس دن ہر شخص اپنا نیک عمل حاضر پائے گا ، اسی طرح ہر برا عمل بھی، (اس روز) انسان یہ تمنا کرے گا کہ کاش یہ دن اس سے بہت دور ہوتا اور اللہ تمہیں اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔

تشریح کلمات

اَمَدًۢا:

غیر معلوم مدت کو اَمَد اور غیر محدود مدت کو اَبَ کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

متعدد قرآنی آیات میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ روز آخرت ہر شخص اپنے اعمال کو حاضر پائے گا۔ قدیم مفسرین یہ تاویل کرتے تھے کہ عمل تو دنیا میں ہو چکا، انہیں حاضر پانا ممکن نہیں۔ لہٰذا مراد جزا و سزائے عمل ہے۔

اولاً: موجودہ دور کے انسان کے علم میں یہ بات آ چکی ہے کہ انسانی اعمال بذات خود قابل دید ہیں اور نابود نہیں ہوتے۔ اس طرح قرآن کی یہ تصریح بھی سمجھ میں آتی ہے:

وَ عِنۡدَنَا کِتٰبٌ حَفِیۡظٌ ۔(ق۵۰: ۴)

ہمارے پاس محفوظ رکھنے والی کتاب ہے۔

ثانیاً: اس آیت میں حاضراً نہیں محضراً (اسم مفعول کا صیغہ) ذکر فرمایا، جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ عمل کو حاضر کیا جائے گا، یعنی اعمال مٹ نہیں جاتے بلکہ موجود ہوتے ہیں اور قیامت کے دن حاضر کیے جائیں گے۔

ثالثاً: ممکن ہے کہ جزائے اعمال قرار دادی اور قانونی ہو۔ یعنی ہر عمل کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص جزا یا سزا مقرر کر رکھی ہے نیز یہ بھی ممکن ہے کہ جزائے اعمال وضعی و طبیعی ہو، یعنی ہر عمل کے اپنے طبیعی و تکوینی مزاج کے مطابق قدرتی طور پر خود سزا و جزا مرتب ہوتی ہے۔ چنانچہ اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ توانائی ختم نہیں ہوتی بلکہ شکل بدلتی رہتی ہے۔ لہٰذا نیکی پر صرف ہونے والی توانائی روز قیامت مادے کی شکل میں جزا بن کر سامنے آئے گی اور برائی پر صرف ہونے والی توانائی مادے کی شکل میں سزا بن کر سامنے آئے گی۔

چنانچہ بعض احادیث سے بھی یہ عندیہ ملتا ہے کہ ہرتسبیح جنت کے محلات کی تعمیر کے لیے اینٹیں بن جاتی ہیں۔

اہم نکات

۱۔ انسان کا ہر نیک اور برا عمل محفوظ رہتا ہے۔


آیت 30