لَا یَتَّخِذِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡکٰفِرِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَلَیۡسَ مِنَ اللّٰہِ فِیۡ شَیۡءٍ اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنۡہُمۡ تُقٰىۃً ؕ وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفۡسَہٗ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ الۡمَصِیۡرُ﴿۲۸﴾

۲۸۔ مومنوں کو چاہیے کہ وہ اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو سرپرست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے، اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، ہاں اگر تم ان (کے ظلم) سے بچنے کے لیے کوئی طرز عمل اختیار کرو (تو اس میں مضائقہ نہیں) اور اللہ تمہیں اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے۔

28۔ آیت کا مضمون یہ ہے کہ مومنین کو چھوڑ کر کافروں کو اولیاء نہ بناؤ۔ یعنی مومنین اور کفار کے درمیان ولایت کا رشتہ نہیں ہے۔ ولایت کی تعریف یہ ہے: الولایۃ عقد النصرۃ للموافقۃ فی الدیانۃ۔ (مجمع البیان) ولایت سے مراد باہمی نصرت و حمایت کا معاہدہ ہے جو ایک دین میں ہونے کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ یعنی ان کی صلح و جنگ ایک ہو۔ یہ ولایت صرف مومنین کے درمیان آپس میں قائم ہے۔ حتیٰ کہ عصر رسالت ﷺ میں یہ ولایت مؤمنین کے درمیان بھی اس وقت تک قائم نہ ہوتی تھی جب تک وہ ہجرت نہ کریں۔ اس قسم کی ولایت اور باہمی حمایت کہ جس سے جنگ و صلح ایک ہو جائے، کا عہد مومنین اور کفار کے درمیان قائم کرنا منع ہے۔ عموماً اولیاء کا ترجمہ دوستی کیا جاتا ہے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ قرآن کفار کے ساتھ ہر قسم کے انسانی تعلقات کو ممنوع قرار دیتا ہے اور انسانوں میں نفرت کا درس دیتا ہے، حالانکہ اسلام ان کافروں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کا حکم دیتا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں ہیں۔