آیت 28
 

لَا یَتَّخِذِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡکٰفِرِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَلَیۡسَ مِنَ اللّٰہِ فِیۡ شَیۡءٍ اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنۡہُمۡ تُقٰىۃً ؕ وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفۡسَہٗ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ الۡمَصِیۡرُ﴿۲۸﴾

۲۸۔ مومنوں کو چاہیے کہ وہ اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو سرپرست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے، اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، ہاں اگر تم ان (کے ظلم) سے بچنے کے لیے کوئی طرز عمل اختیار کرو (تو اس میں مضائقہ نہیں) اور اللہ تمہیں اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے۔

تشریح کلمات

تَتَّقُوۡا:

( و ق ی ) تقاۃ۔ تقیۃ اپنے آپ کو گزند سے بچانا۔

تفسیر آیات

۱۔ لَا یَتَّخِذِ : آیت کا مضمون یہ ہے کہ مؤمنین کو چھوڑ کر کافروں کو اولیاء نہ بناؤ۔ یعنی مؤمنین اور کفار کے درمیان ولایت کا رشتہ نہیں ہے۔ ولایت کی تعریف یہ ہے:

الولایۃ عقد النصرۃ للموافقۃ فی الدیانۃ ۔ (مجمع البیان)

ولایت سے مراد باہمی نصرت و حمایت کا معاہدہ ہے جو ایک دین میں ہونے کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔

یعنی ان کی صلح و جنگ ایک ہو۔ ولایت لغت میں ایسی قربت کو کہتے ہیں جس میں کوئی اور شئے حائل نہ ہو۔

۱۔ یہ قربت اگر باہمی حمایت و نصرت کی خاطر ہے تو یہ ’’ولایت نصرت ‘‘ ہے۔

۲۔ اگر یہ قربت باہمی کشش کی وجہ سے ہے تو اسے ’’ ولایت محبت ‘‘ کہتے ہیں۔

۳۔ اور اگر اس قربت کا سبب رشتہ داری ہے تو یہ ’’ولایت وراثت ‘‘ ہے۔

۴۔ اور اگر یہ قربت کسی کا حکم کسی پر نافذ ہونے کے بارے میں ہے تو یہ ’’ولایت طاعت ‘‘ ہے۔

اس آیت میں مطلق ولایت قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے، لہٰذا مؤمن کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کافر سے نصرت و حمایت کا معاہدہ کرے۔ نہ کافر اور مؤمن میں وراثت قائم ہو سکتی ہے، نہ کافر کی اطاعت اور نہ کافر کی حاکمیت ہو سکتی ہے۔ البتہ اگر خطرے کے باعث ان باتوں میں سے کسی ایک بات کا مظاہرہ کرنا پڑے، مثلاً محبت و دوستی کا مظاہرہ کرنا پڑے تو یہ بات از باب تقیہ و تحفظ (مال و جان کا تحفظ) جائز ہے، ورنہ ولایت کی تمام قسمیں صرف مؤمنین کے درمیان آپس میں قائم ہیں۔ حتیٰ کہ عصر رسالت (ص) میں یہ ولایت مؤمنین کے درمیان بھی اس وقت تک قائم نہ ہوتی تھی، جب تک وہ ہجرت نہ کریں۔ چنانچہ درج ذیل آیت میں اس بات کی صراحت موجود ہے:

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّ نَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یُہَاجِرُوۡا مَا لَکُمۡ مِّنۡ وَّلَایَتِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ حَتّٰی یُہَاجِرُوۡا ۔۔۔۔(۸ انفال: ۷۲)

بے شک جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور انہوں نے اپنے اموال سے اور اپنی جانوں سے راہ خدا میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے پناہ دی اور مدد کی وہ آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی تو ان کی ولایت سے تمہارا کو ئی تعلق نہیں ہے جب تک وہ ہجرت نہ کریں۔۔۔۔

۲۔ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ: اس قسم کی ولایت اور باہمی حمایت کہ جس سے جنگ و صلح ایک ہو جائے، کا عہد مؤمنین اور کفار کے درمیان قائم کرنا منع ہے۔

عموماً اَوۡلِیَآءَ کا ترجمہ دوستی کیا جاتا ہے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ قرآن کفار کے ساتھ ہر قسم کے انسانی تعلقات کو ممنوع قرار دیتا ہے اور انسانوں میں نفرت کا درس دیتا ہے، حالانکہ اسلام ان کافروں کےساتھ اچھے تعلقات رکھنے کا حکم دیتا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں ہیں:

لَا یَنۡہٰىکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ﴿﴾ (۶۰ ممتحنہ: ۸)

جن لوگوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے، اللہ تمہیں ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، اللہ یقینا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

قرآن مجید نے متعدد مقامات پر امت قرآن کو خود اعتمادی اور استقلال کی تاکید فرمائی ہے کہ وہ دشمنوں کواپنی صفوں میں گھسنے نہ دیں اور ان کی سازشوں سے آگاہ رہیں۔ امت قرآن کا جب یہ ایمان ہے کہ پوری کائنات کا حقیقی مالک خدا ہے اور ہر چیز اس کے ہاتھ میں ہے تو اس خدا کی اطاعت گزار امت سے ہٹ کر کسی اور امت کو اپنا حامی بنانا، ایمان کے منافی ہے۔ جو ایسا عمل انجام دے، یعنی ایسا معاہدہ کرے جس کے تحت وہ کفار کی نصرت کے لیے ایک قوت بن جائے تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ نہ دین کا تعلق اور نہ عقیدے کا۔ نہ اللہ کی حاکمیت کا تعلق اور نہ اس کی ربوبیت کا اور نہ ہی اس کی معبودیت کا۔ غرض ایسی صورت میں اللہ سے تمام رشتے منقطع ہو جائیں گے۔ یہ حکم عام حالات کے لیے ہے۔

۳۔ اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا: اس آیت کے دوسرے فقرے میں فرمایا: ہا ں کفار کے ظلم سے بچنے کے لیے اگر ایسے طرز عمل کا اظہار کرو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس آیت سے تقیے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

آیت کی قرائت میں صدر اسلام کے علماء کا اختلاف ہے۔ درج ذیل علماء نے اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا تَقِیَّۃً کی قرائت اختیار کی ہے:

۱۔ جابر بن زید

۲۔ مجاہد

۳۔ ضحاک (تفسیر قرطبی: ۴:۵)

۴۔ یعقوب (بیضاوی ۱: ۲۰۰۔ المنار۳:۲۸۰)

۵۔ابوالرجاء قتادہ (روح المعانی۳: ۱۲۱۔ طبری ۶: ۱۳۱۴)

۶۔ابن عباس

۷۔ حمید بن قیس

۸۔ سہل

۹۔ ابو حیوۃ

۱۰۔ قتادہ (البحر المحیط۳: ۹۴)

استثناء: اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنۡہُمۡ تُقٰىۃً کو بعض مفسرین نے اس لحاظ سے مستثنائے منقطع کہا ہے کہ دشمن سے بطورتقیہ دوستی کا اظہار حقیقتاً دوستی نہ ہو گی، لہٰذا یہ استثنائے منقطع ہے، جب کہ حقیقتاً یہ استثنائے متصل ہے، کیونکہ لَا یَتَّخِذِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡکٰفِرِیۡنَ مطلق ہے۔ یعنی مومنین کو چاہیے کہ وہ اہل ایمان کو چھوڑ کرکفار کو کسی حال میں بھی اپنا دوست نہ بنائیں۔ نہ ظاہراً اور نہ ہی حقیقتاً۔ اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنۡہُمۡ تُقٰىۃً مگر یہ کہ ان سے سے بچنے کے لیے ظاہری دوستی کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

تقیہ کی عمومیت: ۱۔ تقیہ دشمن سے مصنوعی دوستی کے اظہار کے ذریعے انجام پاتا ہے اور گاہے مذہب کو چھپا کر تقیہ انجام دیا جاتا ہے۔ فخرالدین رازی فرماتے ہیں:

و قد تجوز ایضا یتعلق باظہار الدین ۔

کبھی اظہار دین کے سلسلے میں بھی تقیہ جائز ہو جاتا ہے۔

۲۔ آیت کے ظاہری الفاظ کے مطابق کفار کے ساتھ تقیہ کرنا جائز ہے، لیکن اگر خود مسلمانوں کے درمیان بھی ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو تقیہ کرکے اپنا تحفظ ضروری ہے۔ جیسا کہ امام شافعی کا مؤقف بھی یہی ہے کہ اپنے تحفظ کے لیے مسلمانوں کے درمیان بھی تقیہ کرنا جائز ہے۔(تفسیر کبیر ۸: ۱۴)

۳۔ فخرالدین رازی فرماتے ہیں کہ جہاں حفظ جان کے لیے تقیہ کرنا جائز ہے، وہاں حفظ مال کے لیے بھی تقیہ جائز ہے۔ جیسا کہ حضور(ص) سے مروی ہے: حُرْمَۃُ مَالِ الْمُسْلِمِ کَحُرْمَۃِ دَمِہِ ۔ (بحار الانوار ۲۹: ۴۰۷) مال مسلم کی حرمت بھی خون مسلم کی حرمت کی طرح ہے۔

و قال اصحاب ابی حنیفۃ التقیۃ رخصۃ من اللہ تعالیٰ و ترکھا افضل ۔ (البحر المحیط۔ ۳: ۹۵)

علمائے احناف نے کہا ہے: تقیہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اجازت ہے لیکن اس کا ترک کرنا بہتر ہے۔

۴۔ حسن بصری کہتے ہیں: التقیۃ جائزۃ للانسان الی یوم القیامۃ ۔ ( تفسیرقرطبی ۴:۵۷۔ تفسیر کثیر ۱: ۵۰۷)

قیامت تک انسان کے لیے تقیہ جائز ہے۔

۵۔ امام محمدعبدہ تفسیر المنار میں فرماتے ہیں:

اذا جازت موالاتہم لاتقاء الضرر فجوازہا لاجل منفعۃ المؤمنین یکون اولی ۔ (المنار۳: ۲۸۰)

جب دفع ضرر کی خاطرکفار سے دوستی جائز ہے تو مومنین کے مفاد کے لیے ایساکرنا بطریق اولی جائز ہے۔

۶۔ حدیث میں آیا ہے:

مَا وَقَا بِہِ الْمُؤْمِنُ مِنْ عِرْضِہِ صَدَقَۃٌ ۔ (تفسیر روح المعانی ۳:۱۲۴۔ تفسیر مراغی ۳:۱۳۸)

جس چیز سے مومن اپنی آبرو بچاتا ہے، وہ صدقہ ہے۔

رَاْسُ الْعَقْلِ بَعْدَ الْاِیْمَانِ بِاللّٰہِ مُدَارَاۃُ النَّاسِ ۔ (تحف العقول ص ۴۲)

اللہ پر ایمان کے بعد عقل کا سرمایہ لوگوں کے ساتھ رواداری ہے۔

مُدَارَاۃُ النَّاسِ صَدَقَۃُ ۔ (روضۃ الواعظین ۲: ۳۸۰)

لوگوں کے ساتھ رواداری صدقہ ہے۔

مذکورہ بیان سے ان حضرات کی تشفی ہونی چاہیے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ شیعہ امامیہ نے تقیہ کی حدود بہت وسیع کر دی ہیں۔ جیسا کہ آلوسی اور دریا آبادی کا یہی خیال ہے۔

تدبر قرآن کے مؤلف نے تو یہ کہکر: اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنۡہُمۡ تُقٰىۃً کا جملہ فَلَیۡسَ مِنَ اللّٰہِ فِیۡ شَیۡءٍ سےمستثنیٰ ہے، لغت، نظائر قرآن اور سباق و سیاق کی دھجیاں اڑا دی ہیں نیز تفسیر بالرائے اور تحریف معنوی میں ہمارے معاصرین میں ایک نامناسب مثال قائم کی ہے۔ کیونکہ تقیہ کی حدود وقیود میں مفسرین اور فقہاء میں اختلاف ہے، لیکن اس آیت سے تقیہ کے ثابت ہو نے میں تو اصحاب، تابعین، تبع تابعین ، فقہاء اور مفسرین میں سے کسی کو بھی اختلاف نہیں۔ (ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر، تفسیر کبیر فخر الدین رازی ، تفسیر بیضا وی، تفسیر قرطبی، تفسیر روح المعانی، تفسیر المنار، تفسیر فی ظلال القرآن، بیان القرآن، تفسیر مراغی وغیرہ۔)

مولانا مودودی نے دیگر بہت سے مفسرین کی طرح لکھا ہے:

حتیٰ کہ شدید خوف کی حالت میں جو شخص برداشت کی طاقت نہ رکھتا ہو، اس کو کلمہ کفر تک کہ جانے کی رخصت ہے۔ (تفہیم القرآن ۱: ۲۴۴)

چنانچہ حضرت عمار بن یاسر نے اپنے آپ کو ہلاکت سے بچانے کے لیے کلمہ کفر کہ دیا تو یہ آیت نازل ہوئی:

مَنۡ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِہٖۤ اِلَّا مَنۡ اُکۡرِہَ وَ قَلۡبُہٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمَانِ ۔۔ (نحل۱۶: ۱۰۶)

جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ کا انکار کرے (اس کے لیے سخت عذاب ہے) بجز اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں)۔۔۔۔

کیا تقیہ مناسب عمل ہے؟: حالت خوف میں اپنی جان اور عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے تنگ نظر دشمن سے بچنے کا نام تقیہ ہے۔ تقیہ نہ صرف یہ کہ مناسب اور معقول روش ہے، بلکہ ایک انسانی حق بھی ہے، البتہ عار و ننگ ہے اس معاشرے کے لیے، جس میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ایک شخص کو فکر و نظر کی آزادی حاصل نہ ہو اور وہ تقیہ کرنے پر مجبور ہوجائے۔ ایسے تنگ نظر معاشروں کی تشکیل کے ذمہ داروں کے بارے میں حضور (ص)سے مروی ہے:

اِنَّ مِنْ شَرَارِ النَّاسِ مَنْ تَرَکَہُ النَّاسُ اتِّقَائَ فُحْشِہِ ۔ (مستدرک الوسائل ۱۲: ۷۸۔ صحیح البخاری باب ما یجوزا غتیاب اھل الفساد۔)

لوگوں میں بد ترین شخص وہ ہے جس کی بے حیائی سے بچنے کے لیے لوگ اسے ڈھیل دیے رکھیں۔

علماء اور تقیہ: قرآن و سنت کی تعلیمات سے نابلد بہت سے غیر امامی متعصب علماء نے تقیہ پر طعن و تشنیع کرتے ہوئے مذہب امامیہ پر حملے کیے ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں دیکھا جائے تو وہ خود بھی ہر زمانے میں تقیہ کرتے چلے آئے ہیں۔

عباسی خلیفہ معتصم سے پہلے کے علماء تقیہ کی مخالفت میں شاید کسی حد تک معذور ہوں اور تقیہ کے عمل سے دوچار نہ ہوئے ہوں، لیکن معتصم کے بعد کے علماء کو تو کسی صورت بھی تقیہ کے خلاف بات کرنے کا حق نہیں پہنچتا، کیونکہ معتصم نے جب خلق قرآن کے مسئلے میں جبر و تشدد سے کام لیا تو قرآن کو غیر مخلوق سمجھنے

والے علماء کے پاس تقیہ کے ذریعے جان بچانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ ان میں سب سے زیادہ ثابت قدم امام احمد بن حنبل تھے، جنہوں نے بطور تقیہ یہ مؤقف اختیار کیا تھا:

القرآن کلام اللہ لا ازید و لا انقص۔

قرآن بس کلام اللہ ہے، نہ اس سے زیادہ نہ کم۔

احادیث

کافی میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے

التَّقِیَّۃُ فِی کُلِّ شَیْئٍ یُضْطَرُّ اِلَیْہِ ابْنُ آدَمَ فَقَدْ اَحَلَّہُ اللہُ لَہٗ ۔ (اصول الکافی ۲: ۲۲۰۔ المیزان۳: ۱۸۸)

تقیہ ہر اس عمل کے لیے جس پر انسان مجبور ہوتاہے اللہ نے جائز قرار دیاہے۔

اصحاب رسول (ص) میں سے دو افراد مسیلمہ کذاب کے ہاتھوں اسیر ہو گئے۔ مسیلمہ نے ایک صحابی سے پوچھا:کیا تو مجھے رسول اللہ تسلیم کرتا ہے؟اس نے کہا ہاں۔مسیلمہ نے اسے چھوڑ دیا۔ دوسرے صحابی سے یہی سوال کیا تو صحابی نے تین بار کہا: میں گونگا ہوں۔ مسیلمہ نے اس صحا بی کو قتل کر دیا۔ یہ خبر رسول (ص)کو ملی توآپ (ص)نے فرمایا:

اَمَّا ہَذَا الْمَقْتُوْلُ فَمَضٰی عَلَی صِدْقِہِ وَ یَقِیْنِہِ فَہَنِیْئاً لَہْ وَ اَماَّ الْآخَرُ فَقَبِلَ رُخْصَۃَ اللہِ فَلاَ تَبِعَۃَ عَلَیْہِ۔ (بحار الانوار ۲۹: ۴۰۴۔ تفسیر مراغی ۳: ۱۳۷)

مقتول تو اپنے یقین اور صداقت کے ساتھ (اس دنیا سے) چلا گیا، لیکن دوسرے نے اللہ کی طرف سے حاصل شدہ اجازت سے فائدہ اٹھایا، پس اس پر کوئی سرزنش نہیں ہے۔

حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں:

ایک شخص نے رسول اللہ (ص)سے حاضر ہونے کی اجازت طلب کی جب کہ میں ان کی خدمت میں تھی۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: بِئْسَ اِبْنُ الْعَشِیْرَۃِ اَوْ اَخُوْ الْعَشِیْرَۃِ ۔ یہ قبیلے کا بد ترین فرزند ہے یا بد ترین فرد ہے۔ پھراسے اجازت مل گئی اور اس کے ساتھ حضور (ص) نے نرم گفتاری فرمائی۔ جب وہ چلا گیا تو میں نے عرض کیا: اس کے بارے میں آپ (ص) نے فرمایا تھا، پھر نرم کلامی بھی کی؟ آپ (ص)نے فرمایا:

یَا عَائِشَۃَ اِنَّ مِنْ شَرّ النَّاسِ مَنْ یَتْرُکُہُ النَّاسُ اتِّقَائَ فُحْشِہِ ۔ (صحیح البخاری باب المداراۃ مع الناس)

لوگوں میں بدترین شخص وہ ہے جس کی بے حیائی سے بچنے کے لیے لوگ اسے ڈھیل دیے رکھیں۔

نیز حضور (ص)سے مروی ہے:

اِنَّا لَنَکْشُرْ فِیْ وُجُوہِ اَقْوامٍ اِنَّ قُلُوبُنَا لَتَلُعَنُہُمْ ۔ (روح المعانی ۱۳: ۱۲۴۔ تفسیر المراغی ۳: ۱۳۸)

ہم ایسے لوگوں کے منہ پر تبسم اختیار کرتے ہیں جن پر ہمارے دل لعنت بھیجتے ہیں۔

۴۔ وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفۡسَہٗ: اللہ تم کو اپنے سے، یعنی اپنے غضب سے خوف دلاتا ہے۔ معصیت کاروں کے لیے کسی اور چیز سے خوف لاحق نہیں ہے تاکہ وہ اس سے بچ سکیں۔ ان کو خوف ہو گا تو صرف اللہ کے غضب کا خوف ہو گا، جس سے بچانے والا خود اللہ کے علاوہ کوئی نہ ہو گا۔

۵۔ وَ اِلَی اللّٰہِ الۡمَصِیۡرُ: جانا اللہ ہی کی بارگاہ میں ہے تو کوئی اور کیا بچا سکتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ طاقت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہے، لہٰذا مسلمانوں کو خود اعتمادی اور استقلال کے ساتھ صرف اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔

۲۔ تقیہ ایک قرآنی حقیقت ہے، جس پر تمام مفسرین و فقہاء کا اتفاق ہے: تَتَّقُوۡا مِنۡہُمۡ تُقٰىۃً ۔۔۔

۳۔ تنگ نظر دشمن سے تحفظ کی خاطر تقیہ کرنا، ایک قرآنی، اسلامی ، عقلائی اور انسانی حق ہے۔


آیت 28