وَ مَاۤ اَنۡتَ بِہٰدِی الۡعُمۡیِ عَنۡ ضَلٰلَتِہِمۡ ؕ اِنۡ تُسۡمِعُ اِلَّا مَنۡ یُّؤۡمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ اور نہ ہی آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے بچا کر راستہ دکھا سکتے ہیں، آپ ان لوگوں تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور پھر فرمانبردار بن جاتے ہیں۔

وَ اِذَا وَقَعَ الۡقَوۡلُ عَلَیۡہِمۡ اَخۡرَجۡنَا لَہُمۡ دَآبَّۃً مِّنَ الۡاَرۡضِ تُکَلِّمُہُمۡ ۙ اَنَّ النَّاسَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوۡقِنُوۡنَ﴿٪۸۲﴾

۸۲۔ اور جب ان پر وعدہ (عذاب) پورا ہونے والا ہو گا تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک چلنے پھرنے والا نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا کہ درحقیقت لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے۔

82۔ دَآبَّۃً الۡاَرۡضِ: لسان العرب میں آیا ہے: و کل ماش علی الارض دابۃ۔ ہر زمین پر چلنے والے کو دَآبَّۃٍ کہتے ہیں۔ خود قرآن میں بھی انسان کو دابۃ میں شامل کیا گیا ہے: وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزۡقُہَا (ہود:6) زمین پر چلنے پھرنے والا کوئی ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔

تفسیر مظہری 9 :50 میں آیا ہے: بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا وہ دَآبَّۃٍ ایسا دَآبَّۃٍ نہ ہو گا جس کی دم ہو، بلکہ وہ داڑھی والا دَآبَّۃٍ ہو گا۔ آپ علیہ السلام کا اس کلام سے اس طرف اشارہ ہے کہ وہ آدمی ہو گا (چوپایہ نہ ہو گا)، لہذا یہ زمین پر چلنے پھرنے والا جو لوگوں سے بات کرے گا، جسے زمین سے نکالا جائے گا، کوئی انسان ہے جسے زمین سے دوبارہ زندہ کیا جائے گا، جیسا کہ بعض امامی روایات میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی ذات کی طرف اشارہ ہے۔ قرآن اس مطلب کو صراحت کے ساتھ بیان کرنا نہیں چاہتا اور اجمال میں رکھنا چاہتا ہے۔ بہرحال یہ اس وقت کی بات ہے جب عذاب کا آنا یقینی ہو جائے گا اور توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ اس وقت یہ دَآبَّۃً الۡاَرۡضِ اللہ کی طرف سے اعلان کرے گا۔

وَ یَوۡمَ نَحۡشُرُ مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ فَوۡجًا مِّمَّنۡ یُّکَذِّبُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمۡ یُوۡزَعُوۡنَ﴿۸۳﴾

۸۳۔ اور جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک جماعت کو جمع کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتی تھیں پھر انہیں روک دیا جائے گا۔

83۔ آیت کے سیاق سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قیامت سے قبل کا واقعہ ہے، کیونکہ قیامت کے دن سب کو جمع کیا جائے گا۔ وَّ حَشَرۡنٰہُمۡ فَلَمۡ نُغَادِرۡ مِنۡہُمۡ اَحَدًا ۔ (کہف: 47) جب کہ اس آیت میں ہر امت میں سے ایک ایک جماعت کو جمع کرنے کا ذکر ہے۔ اس لیے جب اس آیت کو قیامت کے دن پر محمول کیا جاتا ہے تو لوگوں کو مطلب سمجھ میں نہیں آتا اور ترجمہ میں تحریف کرنا پڑتی ہے۔

حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡ قَالَ اَکَذَّبۡتُمۡ بِاٰیٰتِیۡ وَ لَمۡ تُحِیۡطُوۡا بِہَا عِلۡمًا اَمَّا ذَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۸۴﴾

۸۴۔ جب سب آ جائیں گے تو (اللہ) فرمائے گا: کیا تم نے میری آیات کو جھٹلا دیا تھا؟ جب کہ ابھی تم انہیں اپنے احاطہ علم میں بھی نہیں لائے تھے اور تم کیا کچھ کرتے تھے؟

وَ وَقَعَ الۡقَوۡلُ عَلَیۡہِمۡ بِمَا ظَلَمُوۡا فَہُمۡ لَا یَنۡطِقُوۡنَ﴿۸۵﴾

۸۵۔ اور ان کے ظلم کی وجہ سے بات ان کے خلاف پوری ہو کر رہے گی اور وہ بول نہیں سکیں گے۔

85۔ وَ وَقَعَ الۡقَوۡلُ عَلَیۡہِمۡ : ان ظالموں کے خلاف جو قول و قرار اللہ کی طرف سے طے تھا، وہ آج وقوع پذیر ہو گیا۔ اب یہ معذرت تک نہیں کر سکتے۔

اَلَمۡ یَرَوۡا اَنَّا جَعَلۡنَا الَّیۡلَ لِیَسۡکُنُوۡا فِیۡہِ وَ النَّہَارَ مُبۡصِرًا ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ﴿۸۶﴾

۸۶۔ کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے رات اس لیے بنائی کہ وہ اس میں سکون حاصل کریں اور دن کو روشن بنایا؟ ایمان لانے والوں کے لیے اس میں یقینا نشانیاں ہیں۔

وَ یَوۡمَ یُنۡفَخُ فِی الصُّوۡرِ فَفَزِعَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللّٰہُ ؕ وَ کُلٌّ اَتَوۡہُ دٰخِرِیۡنَ﴿۸۷﴾

۸۷۔ اور جس روز صور میں پھونک ماری جائے گی تو آسمانوں اور زمین کی تمام موجودات خوفزدہ ہو جائیں گی سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ چاہے اور سب نہایت عاجزی کے ساتھ اس کے حضور پیش ہوں گے۔

87۔ ممکن ہے یہ دوسرا صور ہو جس سے سب زندہ ہو جاتے ہیں اور اللہ کے حضور حساب کے لیے پیش ہوں گے۔ ممکن ہے پہلا صور ہو چونکہ آیت میں پہاڑوں کے اڑنے کا ذکر ہے جو پہلے صور سے متعلق ہے۔ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللّٰہُ سے معلوم ہوا کہ کچھ لوگ ہوں گے جو اس فزع اکبر بڑے خوفناک دن میں بھی خوفزدہ نہیں ہوں گے۔

وَ تَرَی الۡجِبَالَ تَحۡسَبُہَا جَامِدَۃً وَّ ہِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ؕ صُنۡعَ اللّٰہِ الَّذِیۡۤ اَتۡقَنَ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ اِنَّہٗ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَفۡعَلُوۡنَ﴿۸۸﴾

۸۸۔ اور آپ پہاڑوں کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ ایک جگہ ساکن ہیں جب کہ (اس وقت) یہ بادلوں کی طرح چل رہے ہوں گے، یہ سب اس اللہ کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو پختگی سے بنایا ہے، وہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔

88۔ یعنی قیامت کے دن پہاڑ بادل کی طرح ہوا میں بکھر جائیں گے، جنہیں آج آپ جامد و ساکن دیکھ رہے ہیں۔ یہ اللہ کی حکیمانہ صنعت گری اور تخلیق کا کرشمہ ہے، جس سے عمل و جزا میں ربط قائم رکھا گیا ہے یا اس تخریب کو اللہ تعالیٰ کی حکیمانہ صنعت گری کا حصہ قرار دینا چاہیے کہ اس تخریب کے بعد ایک نئی کائنات کی تعمیر ہو گی۔

مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ خَیۡرٌ مِّنۡہَا ۚ وَ ہُمۡ مِّنۡ فَزَعٍ یَّوۡمَئِذٍ اٰمِنُوۡنَ﴿۸۹﴾

۸۹۔ جو شخص نیکی لے کر آئے گا اسے اس سے بہتر اجر ملے گا اور وہ اس دن کی ہولناکیوں سے امن میں ہوں گے۔

89۔ شواہد التنزیل میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: الحسنۃ حبنا اہل البیت و السیئۃ بغضنا ۔ نیکی (حَسَنَۃِ) ہم اہل بیت علیہ السلام کی محبت ہے اور برائی (سیئۃ) ہم اہل بیت علیہ السلام کے ساتھ عداوت ہے۔

وَ مَنۡ جَآءَ بِالسَّیِّئَۃِ فَکُبَّتۡ وُجُوۡہُہُمۡ فِی النَّارِ ؕ ہَلۡ تُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۹۰﴾

۹۰۔ اور جو شخص برائی لے کر آئے گا پس انہیں اوندھے منہ آگ میں پھینک دیا جائے گا، کیا تمہیں اپنے کیے کے علاوہ کوئی اور جزا مل سکتی ہے؟

اِنَّمَاۤ اُمِرۡتُ اَنۡ اَعۡبُدَ رَبَّ ہٰذِہِ الۡبَلۡدَۃِ الَّذِیۡ حَرَّمَہَا وَ لَہٗ کُلُّ شَیۡءٍ ۫ وَّ اُمِرۡتُ اَنۡ اَکُوۡنَ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿ۙ۹۱﴾

۹۱۔ (اے رسول! آپ یہ کہیں) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر (مکہ) کے رب کی بندگی کروں جس نے اسے محترم بنایا اور ہر چیز اسی کی ملکیت ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے رہوں۔

91۔ رَبَّ مَکَّہ کی تعبیر مکہ کی منزلت بیان کرنے کے لیے ہے، ورنہ وہ صرف مکہ کا رب نہیں وَ لَہٗ کُلُّ شَیۡءٍ ہر چیز اس کی ملکیت ہے۔

وَ اَنۡ اَتۡلُوَا الۡقُرۡاٰنَ ۚ فَمَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ ضَلَّ فَقُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ﴿۹۲﴾

۹۲۔ اور یہ کہ میں قرآن پڑھ کر سناؤں اس کے بعد جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنے لیے ہدایت اختیار کرے گا اور جو گمراہی میں چلا جائے اسے کہدیجئے: میں تو بس تنبیہ کرنے والا ہوں۔

وَ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ سَیُرِیۡکُمۡ اٰیٰتِہٖ فَتَعۡرِفُوۡنَہَا ؕ وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴿٪۹۳﴾

۹۳۔ اور کہدیجئے: ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے، عنقریب وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم انہیں پہچان لو گے اور آپ کا رب تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔

93۔ ان حتمی آیات کے دکھانے کے بعد پھر مہلت ختم ہو جاتی ہے۔ فَتَعۡرِفُوۡنَہَا اس وقت ان آیات کی معرفت ہو جائے گی۔ اس معرفت کا انہیں کوئی فائدہ نہ ہو گا، چونکہ پردہ ہٹ جانے کے بعد عمل کا وقت گزر چکا ہو گا۔ صرف حساب کا دن ہو گا۔