قیامت کے حالات


اِنَّ رَبَّکَ یَقۡضِیۡ بَیۡنَہُمۡ بِحُکۡمِہٖ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡعَلِیۡمُ ﴿ۙۚ۷۸﴾

۷۸۔ یقینا آپ کا رب اپنے حکم سے ان کے درمیان فیصلہ کر دیتا ہے اور وہی بڑا غالب آنے والا ، بڑا علم رکھنے والا ہے۔

وَ تَرَی الۡجِبَالَ تَحۡسَبُہَا جَامِدَۃً وَّ ہِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ؕ صُنۡعَ اللّٰہِ الَّذِیۡۤ اَتۡقَنَ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ اِنَّہٗ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَفۡعَلُوۡنَ﴿۸۸﴾

۸۸۔ اور آپ پہاڑوں کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ ایک جگہ ساکن ہیں جب کہ (اس وقت) یہ بادلوں کی طرح چل رہے ہوں گے، یہ سب اس اللہ کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو پختگی سے بنایا ہے، وہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔

88۔ یعنی قیامت کے دن پہاڑ بادل کی طرح ہوا میں بکھر جائیں گے، جنہیں آج آپ جامد و ساکن دیکھ رہے ہیں۔ یہ اللہ کی حکیمانہ صنعت گری اور تخلیق کا کرشمہ ہے، جس سے عمل و جزا میں ربط قائم رکھا گیا ہے یا اس تخریب کو اللہ تعالیٰ کی حکیمانہ صنعت گری کا حصہ قرار دینا چاہیے کہ اس تخریب کے بعد ایک نئی کائنات کی تعمیر ہو گی۔

مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ خَیۡرٌ مِّنۡہَا ۚ وَ ہُمۡ مِّنۡ فَزَعٍ یَّوۡمَئِذٍ اٰمِنُوۡنَ﴿۸۹﴾

۸۹۔ جو شخص نیکی لے کر آئے گا اسے اس سے بہتر اجر ملے گا اور وہ اس دن کی ہولناکیوں سے امن میں ہوں گے۔

89۔ شواہد التنزیل میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: الحسنۃ حبنا اہل البیت و السیئۃ بغضنا ۔ نیکی (حَسَنَۃِ) ہم اہل بیت علیہ السلام کی محبت ہے اور برائی (سیئۃ) ہم اہل بیت علیہ السلام کے ساتھ عداوت ہے۔