آیت 89
 

مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ خَیۡرٌ مِّنۡہَا ۚ وَ ہُمۡ مِّنۡ فَزَعٍ یَّوۡمَئِذٍ اٰمِنُوۡنَ﴿۸۹﴾

۸۹۔ جو شخص نیکی لے کر آئے گا اسے اس سے بہتر اجر ملے گا اور وہ اس دن کی ہولناکیوں سے امن میں ہوں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ: ایسی نیکی کا ذکر معلوم ہوتا ہے جو نجات کے لیے بنیاد ہے۔ ایسی جامع نیکی جو تمام نیکیوں کا سرچشمہ ہے چونکہ اس نیکی کی وجہ سے وہ قیامت کی ہولناکیوں سے امان میں ہو گا۔ یہ اس نیکی کی طرح نہیں ہے جس کا ذکر مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ خَیۡرٌ مِّنۡہَا ۔۔۔۔ (انعام: ۱۶۰ (ترجمہ) جو (اللہ کے پاس) ایک نیکی لے کر آئے گا اسے دس گنا (اجر) ملے گا۔) میں آیا ہے۔ وہاں نیکی برائے ثواب کا ذکر ہے۔ یہاں نیکی برائے نجات کا ذکر ہے۔

اسی لیے اس نیکی کے بارے میں بعض روایات میں آیا ہے: یہ کلمہ لا الٰہ الا اللہ ہے اور بعض دیگر مصادر میں آیا ہے اس سے مراد ولایت علی بن ابی طالب علیہ السلام ہے۔ بعض دیگر شیعی مصادر میں آیا ہے کہ اس نیکی سے مراد اللہ کی محبت ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام ایک کی روایت اسی مضمون پر مشتمل ہے۔

المیزان ولایت علی علیہ السلام کی تفسیر محبت خدا سے کرتے ہیں کہ علی علیہ السلام کی ولایت کا مطلب فنا فی اللہ ہے اور سب سے پہلے فنا فی اللہ کا دروازہ کھولنے والی ذات علی علیہ السلام کی ہے۔

۲۔ فَلَہٗ خَیۡرٌ مِّنۡہَا اگر ہم نیکی کی تفسیر حب اللہ اور فنا فی اللّٰہ سے کرتے ہیں تو اس جملے کا مطلب واضح ہو جاتا ہے۔ حب اللہ کا نتیجہ رضائے رب ہے جو سب سے بہتر ہے۔ وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ۔۔ (۹ توبۃ: ۷۲) اللہ کی طرف سے خوشنودی سب سے بڑھ کر ہے۔

۳۔ وَ ہُمۡ مِّنۡ فَزَعٍ یَّوۡمَئِذٍ اٰمِنُوۡنَ یعنی اس جامع حسنہ کے حامل لوگ قیامت کی ہولناکیوں سے امن میں رہیں گے۔ جیسے فرمایا:

لَا یَحۡزُنُہُمُ الۡفَزَعُ الۡاَکۡبَرُ ۔۔۔ (۲۱ انبیاء: ۱۰۳)

انہیں قیامت کے بڑے خوفناک حالات بھی خوفزدہ نہیں کریں گے۔

اہم نکات

۱۔ انسان کو اس نیکی کے درپے ہونا چاہیے جو نجات کی ضامن ہے۔


آیت 89