وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۷۱﴾

۷۱۔ اور وہ کہتے ہیں: اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ آخر کب پورا ہو گا؟

قُلۡ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ رَدِفَ لَکُمۡ بَعۡضُ الَّذِیۡ تَسۡتَعۡجِلُوۡنَ﴿۷۲﴾

۷۲۔ کہدیجئے: ممکن ہے جن بعض باتوں کے لیے تم عجلت چاہ رہے ہو وہ تمہارے پس پشت پہنچ چکی ہوں۔

72۔ اس عذاب سے مراد دنیاوی عذاب ہو سکتا ہے جو ان کے پس پشت پہنچ چکا ہے اور وہ جنگ بدر میں ان کی ذلت آمیر شکست سے شروع ہو جاتا ہے۔

مجرمین پر عذاب نازل کرنے میں خدا عجلت سے کام نہیں لیتا، جبکہ مجرمین خود اس عدم عجلت کو قیامت کے برحق نہ ہونے کی دلیل ٹھہراتے ہیں۔

عذاب کا مستحق ہونے کے باوجود عذاب میں عجلت سے کام نہ لینا اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے جس سے ان کے جرم میں اضافہ ہوتا ہے۔

عذاب میں تاخیر اس وجہ سے تو نہیں ہے کہ اللہ کو مجرمین کے جرم پر علم حاصل ہونے میں وقت لگتا ہے، اللہ تو جرم کے واقع ہونے سے پہلے جانتا ہے کہ کون کس جرم کا ارتکاب کرنے والا ہے۔

وَ اِنَّ رَبَّکَ لَذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَشۡکُرُوۡنَ﴿۷۳﴾

۷۳۔ اور بتحقیق آپ کا رب لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔

وَ اِنَّ رَبَّکَ لَیَعۡلَمُ مَا تُکِنُّ صُدُوۡرُہُمۡ وَ مَا یُعۡلِنُوۡنَ﴿۷۴﴾

۷۴۔ اور جو کچھ ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں بتحقیق آپ کا رب اسے خوب جانتا ہے ۔

وَ مَا مِنۡ غَآئِبَۃٍ فِی السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ﴿۷۵﴾

۷۵۔اور آسمان اور زمین میں کوئی ایسی پوشیدہ بات نہیں ہے جو کتاب مبین میں نہ ہو۔

اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَقُصُّ عَلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَکۡثَرَ الَّذِیۡ ہُمۡ فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۷۶﴾

۷۶۔ بے شک یہ قرآن بنی اسرائیل کو اکثر وہ باتیں بیان کر دیتا ہے جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔

76۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، روح القدس اور اللہ (اقنوم ثلاثۃ) اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سولی چڑھنے میں ان کے اختلاف کے بارے میں قرآن فیصلہ کن مؤقف بیان کرتا ہے۔

وَ اِنَّہٗ لَہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۷۷﴾

۷۷۔ اور یہ اہل ایمان کے لیے یقینا ہدایت اور رحمت ہے۔

اِنَّ رَبَّکَ یَقۡضِیۡ بَیۡنَہُمۡ بِحُکۡمِہٖ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡعَلِیۡمُ ﴿ۙۚ۷۸﴾

۷۸۔ یقینا آپ کا رب اپنے حکم سے ان کے درمیان فیصلہ کر دیتا ہے اور وہی بڑا غالب آنے والا ، بڑا علم رکھنے والا ہے۔

فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّکَ عَلَی الۡحَقِّ الۡمُبِیۡنِ﴿۷۹﴾

۷۹۔ لہٰذا آپ اللہ پر بھروسا کریں، یقینا آپ صریح حق پر ہیں۔

79۔ استقامت کے لیے دو بنیادوں کا ذکر ہے: ایک یہ کہ اس کائنات کی طاقت کے سرچشمہ ”اللہ“ پر اپنا بھروسہ قائم رکھو۔ دوم یہ کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صریح حق پر ہیں۔ حق کو دوام حاصل ہے اور باطل زوال پذیر ہے۔

اِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی وَ لَا تُسۡمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰۔ آپ نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں نہ ہی بہروں کو اپنی دعوت سنا سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھیر کر جا رہے ہوں۔

80۔ جن مردوں میں سننے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی نہ ہو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کو اپنے حق کا پیغام کیسے سنا سکتے ہیں۔ یہ استعارہ ہے ان زندوں کے لیے جو قوت فہم و ادراک سے محروم ہیں۔