آیت 82
 

وَ اِذَا وَقَعَ الۡقَوۡلُ عَلَیۡہِمۡ اَخۡرَجۡنَا لَہُمۡ دَآبَّۃً مِّنَ الۡاَرۡضِ تُکَلِّمُہُمۡ ۙ اَنَّ النَّاسَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوۡقِنُوۡنَ﴿٪۸۲﴾

۸۲۔ اور جب ان پر وعدہ (عذاب) پورا ہونے والا ہو گا تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک چلنے پھرنے والا نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا کہ درحقیقت لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِذَا وَقَعَ الۡقَوۡلُ: یہ تعبیر قرآن میں وعدے کے پورا ہونے اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ چنانچہ اگلی آیت میں فرمایا:

وَ وَقَعَ الۡقَوۡلُ عَلَیۡہِمۡ بِمَا ظَلَمُوۡا فَہُمۡ لَا یَنۡطِقُوۡنَ﴿﴾

اور ان کے ظلم کی وجہ سے بات ان کے خلاف پوری ہو کر رہے گی اور وہ بول نہیں سکیں گے۔

۲۔ اَخۡرَجۡنَا لَہُمۡ دَآبَّۃً مِّنَ الۡاَرۡضِ: ہم ان کے لیے زمین سے ایک چلنے پھرنے والا نکالیں گے۔ دَآبَّۃً کے لغوی معنی چلنے پھرنے والے کے ہیں۔ انسان اور حیوان دونوں شامل ہیں یا اَخۡرَجۡنَا زمین سے نکالنے سے مراد ہو سکتا ہے موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنا ہو یا بطور معجزہ کسی جاندار کو زمین سے نکالنا ہو۔

واضح رہے اس آیت میں دَآبَّۃً اور اَخۡرَجۡنَا ۔ دونوں لفظوں میں ایسا اجمال ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مطلب کو اجمال میں رکھنا چاہتا ہے۔

۲۔ تُکَلِّمُہُمۡ: یہ دَآبَّۃً ان سے بات کرے گا۔ یہ قرینہ بن سکتا ہے کہ یہ دَآبَّۃً کوئی انسان ہے لیکن ساتھ یہ امکان بھی ہے کہ اس دَآبَّۃً کا بات کرنا ایک معجزے کے طور پر ہو۔ پھر آگے وہ بات کیا ہو گی اس کا ذکر نہیں ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ اجمال میں رکھنا ہی منظور الٰہی ہے۔

یہ بات بھی قاری کی نظر میں رہے کہ اللہ تعالیٰ نے حفاظت قرآن کا جو انتظام فرمایا اس میں سے ایک یہی اجمال و ابہام ہے اور قرآن کا ذو وجوہ ہونا ہے۔ ہم نے مقدمہ میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ قرآن نے صرف اصول و کلیات ہی بیان کیے ہیں اور تفسیر و تشریح کا کام سنت پر چھوڑ دیا ہے۔ آیہ مباہلہ میں اَبۡنَآءَکُمۡ اور وَ نِسَآءَنَا (۳ آل عمران: ۶۱) کی تشریح سنت نے کی ہے۔ اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ﴿﴾ (۱۰۸ کوثر:۳) اور الشَّجَرَۃَ الْمَلْعُوْنَۃَ (۱۷ اسراء: ۶۰) سے کون مراد ہیں؟ قرآن نے اس کی وضاحت نہیں کی۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ صرف ابو لہب کا نام صراحۃً ذکر ہوا ہے چونکہ مستقبل میں رسولؐ کے خاندان کی طرف سے کسی تحریف کا خطرہ نہیں تھا۔

۳۔ اَنَّ النَّاسَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوۡقِنُوۡنَ: بعض کے نزدیک یہی وہ کلام ہے جو یہ دَآبَّۃً کرے گا۔ مجمع البیان کے نزدیک ظاہر آیت یہی ہے لیکن یہ دابۃٌ کا کلام ہونا اور اس کا ظاہر آیت ہونا اکثر مفسرین کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے بلکہ اس بات کے سبب کا بیان ہے کہ ان کے بارے وعدہ عذاب کیسے پورا ہوا۔ وعدہ عذاب اس لیے پورا ہوا کہ وہ آیات الٰہی پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

آبَّۃً مِّنَ الۡاَرۡضِ کون ہیں؟ غیر شیعہ مفسرین میں اس دَآبَّۃً کے بارے میں جو نامعقول خرافاتی باتیں منقول ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ حقیقت کے راستے سے پھسلنے کے بعد کیسے گہری کھائی میں گرتے ہیں۔ کہتے ہیں:

اس کی لمبائی ساٹھ ہاتھ ہو گی۔ اس کے بال اور سم ہو گا اور ساتھ داڑھی ہو گی۔ اس کا سر بیل کے سر کی طرح، آنکھ سور کی آنکھوں کی طرح، کان ہاتھی کی طرح، اس کے سینگ ہرنی کی طرح، اس کی گردن شتر مرغ کی طرح، اس کا سینہ شیر کی طرح، اس کا رنگ چیتے کی طرح، اس کی دم دنبے کی طرح، ٹانگیں اونٹ کی طرح ہوں گی۔ چہرہ انسان کی طرح ہو گا۔ پرندے کی طرح چونچ ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ اس کے دونوں سینگوں کا درمیانی فاصلہ ایک فرسخ ہو گا۔ (الدر المنثور ۵:۱۱۷، تفسیر ابن کثیر ۶:۱۹۳)

اس کے مقابلے میں دیگر روایات میں اس دَآبَّۃً کے بارے میں آیا ہے: حضرت علی علیہ السلام سے اس دَآبَّۃً کے بارے میں سوال ہوا تو آپؑ نے فرمایا:

اما و اللہ ما لھا ذنب و ان لھا للحیۃ ۔ (بحار ۶:۳۰۰)

قسم بخدا اس کی کوئی دم نہ ہو گی، اس کی تو داڑھی ہو گی۔

دیگر حدیث رسولؐ میں آیا ہے:

انھا تکتب علی جبین الکافر انہ کافر وعلی جبین المؤمن انہ مؤمن ۔ (التبیان ۸:۱۲۰)

یہ دَآبَّۃً کافر کے رخسار پر لکھے گا یہ کافر ہے اور مؤمن کے رخسار پر لکھے گا یہ مؤمن ہے۔

تخرج دابۃ الارض و معھا عصا موسی و خاتم سلیمان علیھما السلام فتخطم انف الکافر بالعصا و تجلی وجہ المؤمن بالخاتم ۔ (مسند احمد۔ ۲:۲۵۹۔۴۹۱، سنن ابن ماجۃ کتاب الفتن)

دابۃ الارض زمین سے نکلے گا ان کے ساتھ موسیٰ کا عصا اور سلیمان کی انگوٹھی ہو گی وہ عصا سے کافر کی ناک کاٹے گا اور انگوٹھی سے مؤمن کا چہرہ چمکا دے گا۔

دَآبَّۃً کا خروج قیامت سے پہلے ہو گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے۔ اس حدیث کو مسلم اور اصحاب سنن نے ذکر کیا ہے:

لا تقوم الساعۃ حتی تروا عشر آیات: طلوع الشمس من مغربھا، والدخان و الدابۃ ۔۔۔۔

جب تک دس نشانیوں کا مشاہدہ نہ کرو گے قیامت برپا نہ ہو گی۔ مغرب سے سورج کا طلوع، دھواں اور دَآبَّۃً ۔۔۔۔

حذیفہ بن الیمانؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ سے پوچھا گیا: یہ دَآبَّۃً کہاں سے نکلے گا؟ فرمایا:

تخرج من اعظم المساجد حرمۃ علی اللہ بینما عیسی یطوف بالبیت و معہ المسلمون ۔ (تفسیر طبری ۲۰: ۱۱)

یہ دَآبَّۃً اللہ کے نزدیک حرمت کے اعتبار سے سب سے عظیم مسجد سے نکلے گا جب عیسیٰ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہوں گے اور مسلمان ان کے ساتھ ہوں گے۔


آیت 82