وَ اِذَا وَقَعَ الۡقَوۡلُ عَلَیۡہِمۡ اَخۡرَجۡنَا لَہُمۡ دَآبَّۃً مِّنَ الۡاَرۡضِ تُکَلِّمُہُمۡ ۙ اَنَّ النَّاسَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوۡقِنُوۡنَ﴿٪۸۲﴾

۸۲۔ اور جب ان پر وعدہ (عذاب) پورا ہونے والا ہو گا تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک چلنے پھرنے والا نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا کہ درحقیقت لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے۔

82۔ دَآبَّۃً الۡاَرۡضِ: لسان العرب میں آیا ہے: و کل ماش علی الارض دابۃ۔ ہر زمین پر چلنے والے کو دَآبَّۃٍ کہتے ہیں۔ خود قرآن میں بھی انسان کو دابۃ میں شامل کیا گیا ہے: وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزۡقُہَا (ہود:6) زمین پر چلنے پھرنے والا کوئی ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔

تفسیر مظہری 9 :50 میں آیا ہے: بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا وہ دَآبَّۃٍ ایسا دَآبَّۃٍ نہ ہو گا جس کی دم ہو، بلکہ وہ داڑھی والا دَآبَّۃٍ ہو گا۔ آپ علیہ السلام کا اس کلام سے اس طرف اشارہ ہے کہ وہ آدمی ہو گا (چوپایہ نہ ہو گا)، لہذا یہ زمین پر چلنے پھرنے والا جو لوگوں سے بات کرے گا، جسے زمین سے نکالا جائے گا، کوئی انسان ہے جسے زمین سے دوبارہ زندہ کیا جائے گا، جیسا کہ بعض امامی روایات میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی ذات کی طرف اشارہ ہے۔ قرآن اس مطلب کو صراحت کے ساتھ بیان کرنا نہیں چاہتا اور اجمال میں رکھنا چاہتا ہے۔ بہرحال یہ اس وقت کی بات ہے جب عذاب کا آنا یقینی ہو جائے گا اور توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ اس وقت یہ دَآبَّۃً الۡاَرۡضِ اللہ کی طرف سے اعلان کرے گا۔