آیت 83
 

وَ یَوۡمَ نَحۡشُرُ مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ فَوۡجًا مِّمَّنۡ یُّکَذِّبُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمۡ یُوۡزَعُوۡنَ﴿۸۳﴾

۸۳۔ اور جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک جماعت کو جمع کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتی تھیں پھر انہیں روک دیا جائے گا۔

تفسیر آیات

آیت کے ظاہری سیاق سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قیامت سے قبل کا واقعہ ہے کیونکہ قیامت کے دن سب کو جمع کیا جانا ہے:

وَّ حَشَرۡنٰہُمۡ فَلَمۡ نُغَادِرۡ مِنۡہُمۡ اَحَدًا (۱۸ کہف: ۴۷)

اور سب کو ہم جمع کریں گے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔

جب کہ اس آیت میں ہر امت میں سے یک ایک جماعت کو جمع کرنے کا ذکر ہے۔

اس آیت کی دوسری تفسیر یہ کرتے ہیں : یہ قیامت کا ہی واقعہ ہے اور وَ یَوۡمَ نَحۡشُرُ مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ فَوۡجًا اس دن ہم ہر امت کو فوج فوج کر کے جمع کریں گے۔

تیسری تفسیر میں کہتے ہیں: ہر نبی کی امت میں تصدیق اور تکذیب کرنے والے سب شامل ہیں۔ اس آیت میں فرمایا: ہر امت میں سے تکذیب کرنے والوں کو جمع کیا جائے گا یا یہ کہ ان کے سرداروں کو جمع کیا جائے گا۔ اس تفسیر کے مطابق من زائدہ نہیں ہے اور واقعہ قیامت کا ہے۔

پہلی تفسیر کے مطابق اس آیت سے رجعت پر استدلال کیا جاتا ہے کہ ظہور مہدی علیہ السلام کے موقع پر دشمنان اہل بیت میں سے صف اول کے لوگوں کو انتقام اور صف اول کے مؤمنوں کو حکومت مہدی میں شرکت کے لیے زندہ کیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں شیعہ مصادر میں روایات کثرت سے موجود ہیں۔

علمائے شیعہ کی ایک جماعت نے رجعت کے بارے میں وارد روایات کی تاویل کی ہے کہ رجعت سے مراد آل محمد کی حکومت کی رجعت ہے، افراد و اشخاص کی نہیں۔ ملاحظہ ہو مجمع البیان ذیل آیہ۔

صاحب المیزان کے نزدیک ظاہر آیت سے یہ حشر، قیامت سے پہلے ہونا ظاہر ہو جاتا ہے۔ تاہم آیت اس مفہوم پر نص صریح نہیں ہے۔ تاویل ہو سکتی ہے۔


آیت 83