آیت 88
 

وَ تَرَی الۡجِبَالَ تَحۡسَبُہَا جَامِدَۃً وَّ ہِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ؕ صُنۡعَ اللّٰہِ الَّذِیۡۤ اَتۡقَنَ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ اِنَّہٗ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَفۡعَلُوۡنَ﴿۸۸﴾

۸۸۔ اور آپ پہاڑوں کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ ایک جگہ ساکن ہیں جب کہ (اس وقت) یہ بادلوں کی طرح چل رہے ہوں گے، یہ سب اس اللہ کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو پختگی سے بنایا ہے، وہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ تَرَی الۡجِبَالَ تَحۡسَبُہَا جَامِدَۃً: اس آیت میں کیا قیامت کے دن کا ذکر ہے یا زمین کی حرکت کی طرف اشارہ ہے؟ سیاق آیت بتاتا ہے کہ قیامت سے مربوط ہے کہ صور پھونکنے کے بعد ایک کائناتی انقلاب آئے گا جس میں پہاڑ جو ابھی آپ کو ساکن آ نظر رہے ہیں ، بادل کی طرح اڑتے ہوئے نظر آئیں

وَّ سُیِّرَتِ الۡجِبَالُ فَکَانَتۡ سَرَابًا ﴿﴾ (۷۸ نباء: ۲۰)

اور پہاڑ چلا دیے جائیں گے تو وہ سراب ہو جائیں گے۔

۲۔ صُنۡعَ اللّٰہِ الَّذِیۡۤ اَتۡقَنَ کُلَّ شَیۡءٍ: یہ کائناتی انقلاب، یہ تخریب و تعمیر اللہ تعالیٰ کی صنعت کاملہ کا ایک حصہ ہے۔ اللہ کے مضبوط اور مستحکم طریقہ تخلیق و ارتقا کا ایک مرحلہ ہے۔ اَتۡقَنَ کُلَّ شَیۡءٍ ہر چیز کی تخلیق میں انضباط و استواری رکھی ہے۔ کائنات کا یہ انقلاب اسی انضباط کا حصہ ہے۔ نئی کائنات کی تعمیر کے لیے پرانی کائنات کا ملبہ ہٹانا اسی صنعت کاملہ کا تقاضا ہے۔

۳۔ اِنَّہٗ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَفۡعَلُوۡنَ: نفخ صور اور قیام قیامت کا منظر پیش فرمانے کے بعد زمان نزول قرآن سے لے کر تا قیام قیامت کے لوگوں کے لیے خطاب فرمایا: اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ اگر یہ آیت قیامت سے مربوط ہوتی تو بما فعلتم کہتے۔

بعض حضرات نے پوری شد و مد سے اس آیت سے حرکت زمین پر استدلال کیا ہے اور کہتے ہیں جبال کہہ کر پورا کرۂ ارض مراد لیا گیا ہے۔

اہم نکات

۱۔ قیامت ایک تخریب برائے تعمیر، ایک انقلاب برائے ارتقاء ہے۔


آیت 88