اَمَّنۡ جَعَلَ الۡاَرۡضَ قَرَارًا وَّ جَعَلَ خِلٰلَہَاۤ اَنۡہٰرًا وَّ جَعَلَ لَہَا رَوَاسِیَ وَ جَعَلَ بَیۡنَ الۡبَحۡرَیۡنِ حَاجِزًا ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ؕ۶۱﴾

۶۱۔ (یہ بت بہتر ہیں) یا وہ جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس کے بیچ میں نہریں بنائیں اور اس کے لیے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان ایک آڑ بنائی؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔

61۔ دونوں سمندر اپنے کیمیکل مواد اور نمک کی وجہ سے جو پانی میں حل ہو گئے ہیں، ایک دوسرے سے مخلوط نہیں ہوتے، جیسے تیل اور پانی۔ ان آیات میں نفی شرک پر استدلال ہے کہ کیا تخلیق کائنات کے بعد تدبیر کے عظیم کارنامہ حکیمانہ منصوبہ بندی میں اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود شریک ہے؟ واضح رہے مشرکین اللہ کو زمین کا رب نہیں مانتے تھے۔ اس آیت میں زمین کی تدبیر کا ذکر ہے۔

اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ وَ یَجۡعَلُکُمۡ خُلَفَآءَ الۡاَرۡضِ ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿ؕ۶۲﴾

۶۲۔ یا وہ بہتر ہے جو مضطرب کی فریاد سنتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے اور تمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے ؟ تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔

62۔ جب تم بے بس ہوتے ہو تو اللہ کو پکارتے ہو کیونکہ تمہاری جبلت میں اللہ کا تصور موجود ہے۔ وہ مصیبت کے وقت ہی تمہیں یاد آتا ہے۔ وہی ذات تمہارا معبود ہے جس نے زمین میں تمہارے فائدے کی ہر چیز تمہارے اختیار میں رکھی ہے۔ اس طرح اس نے مجموعی طور پر انسان کو زمین میں خلافت عطا کی ہے۔

اَمَّنۡ یَّہۡدِیۡکُمۡ فِیۡ ظُلُمٰتِ الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ وَ مَنۡ یُّرۡسِلُ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ تَعٰلَی اللّٰہُ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾

۶۳۔ یا وہ بہتر ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تمہاری رہنمائی کرتا ہے اور کون ہے جو ہواؤں کو خوشخبری کے طور پر اپنی رحمت کے آگے آگے بھیجتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ اللہ بالاتر ہے ان چیزوں سے جنہیں یہ شریک ٹھہراتے ہیں۔

63۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں سفر کے دوران اللہ نے انسان کی رہنمائی کا انتظام ستاروں سے کیا ہے تاکہ منزل کا تعین ہو۔

اَمَّنۡ یَّبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ وَ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔یا وہ بہتر ہے جو خلقت کی ابتدا کرتا ہے پھر اسے دہراتا ہے اور کون تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ کہدیجئے: اپنی دلیل پیش کرو اگر تم لوگ سچے ہو۔

64۔ جو ذات نقش اول پر قادر ہے وہ نقش دوم پر زیادہ قادر ہے اور جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے وہی تمہارا معبود ہے۔

ان آیات میں ایک نکتے پر توجہ مرکوز ہے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ معبود وہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں اس کائنات کی تدبیر ہے۔ پھر سوال اٹھایا گیا کہ بتاؤ تدبیر کائنات کس کے ہاتھ میں ہے؟ کون آسمان سے پانی برساتا ہے؟ کس نے زمین کو جائے قرار بنایا؟ کون ہے جو مضطرب کی فریاد سنتا ہے ؟ کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سب تدبیر کائنات سے متعلق سوالات ہیں۔ جب یہ سب تدبیریں اللہ کے ہاتھ میں ہیں تو صرف اسی کی بندگی کرو۔

قُلۡ لَّا یَعۡلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ الۡغَیۡبَ اِلَّا اللّٰہُ ؕ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ﴿۶۵﴾

۶۵۔ کہدیجئے: جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، وہ غیب کی باتیں نہیں جانتے سوائے اللہ کے اور نہ انہیں یہ علم ہے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔

65۔ بذات خود غیب صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ یہاں اس کے ساتھ کوئی غیب نہیں جانتا۔ اس کے بعد اگر کوئی غیب جانتا ہے تو بذات خود نہیں، اللہ تعالیٰ کے بتانے پر جانتا ہے۔ لہٰذا غیب کا مصدر صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔

بَلِ ادّٰرَکَ عِلۡمُہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ ۟ بَلۡ ہُمۡ فِیۡ شَکٍّ مِّنۡہَا ۫۟ بَلۡ ہُمۡ مِّنۡہَا عَمُوۡنَ﴿٪۶۶﴾

۶۶۔ بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ماند پڑ گیا ہے، بلکہ وہ اس کے بارے میں شک میں ہیں بلکہ یہ اس کے بارے میں اندھے ہیں۔

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا ءَ اِذَا کُنَّا تُرٰبًا وَّ اٰبَآؤُنَاۤ اَئِنَّا لَمُخۡرَجُوۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ اور کفار کہتے ہیں: جب ہم اور ہمارے باپ دادا خاک ہو چکے ہوں گے تو کیا ہمیں (قبروں سے) نکالا جائے گا؟

لَقَدۡ وُعِدۡنَا ہٰذَا نَحۡنُ وَ اٰبَآؤُنَا مِنۡ قَبۡلُ ۙ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔ اس قسم کا وعدہ پہلے بھی ہم سے اور ہمارے باپ دادا سے ہوتا رہا ہے یہ تو قصہ ہائے پارینہ کے سوا کچھ نہیں۔

68۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آخرت کا تصور قائم کر کے کوئی انوکھا کام نہیں کیا بلکہ یہ عقیدہ خود مشرکین کے اعتراف کے مطابق تمام سابقہ انبیاء بیان کرتے آئے ہیں۔ اس تصور کو رد کرنے کا مشرکین یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ یہ وعدہ اگر حق ہے اور قیامت آنے والی ہے تو ابھی تک آئی کیوں نہیں؟

قُلۡ سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُجۡرِمِیۡنَ﴿۶۹﴾

۶۹۔ کہدیجئے: زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ مجرموں کا کیا انجام ہوا ہے۔

69۔ سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ سے تمہیں یہ نظر آئے گا کہ ان قوموں کا انجام کیسا رہا جنہوں نے قیامت کا انکار کیا تھا۔ ان کا انجام دیکھ کر ان سے سبق لو اور انکار آخرت کے جرم کے مرتکب نہ بنو۔

وَ لَا تَحۡزَنۡ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا تَکُنۡ فِیۡ ضَیۡقٍ مِّمَّا یَمۡکُرُوۡنَ﴿۷۰﴾

۷۰۔ اور (اے رسول) ان (کے حال) پر رنجیدہ نہ ہوں اور نہ ہی ان کی مکاریوں پر دل تنگ ہوں۔

70۔ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رنجیدگی ان لوگوں کی خاطر ہے جو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف مکاریاں کرتے ہیں۔ یہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وسعت قلبی ہے نیز عالمین کے لیے رحمت ہونے کی دلیل ہے، ورنہ خود اپنے خلاف مکاریاں کرنے والوں کے ساتھ نفرت ہوا کرتی ہے۔