لَقَدۡ وُعِدۡنَا ہٰذَا نَحۡنُ وَ اٰبَآؤُنَا مِنۡ قَبۡلُ ۙ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔ اس قسم کا وعدہ پہلے بھی ہم سے اور ہمارے باپ دادا سے ہوتا رہا ہے یہ تو قصہ ہائے پارینہ کے سوا کچھ نہیں۔

68۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اسلام ﷺ نے آخرت کا تصور قائم کر کے کوئی انوکھا کام نہیں کیا بلکہ یہ عقیدہ خود مشرکین کے اعتراف کے مطابق تمام سابقہ انبیاء بیان کرتے آئے ہیں۔ اس تصور کو رد کرنے کا مشرکین یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ یہ وعدہ اگر حق ہے اور قیامت آنے والی ہے تو ابھی تک آئی کیوں نہیں؟