آیت 62
 

اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ وَ یَجۡعَلُکُمۡ خُلَفَآءَ الۡاَرۡضِ ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿ؕ۶۲﴾

۶۲۔ یا وہ بہتر ہے جو مضطرب کی فریاد سنتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے اور تمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے ؟ تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ: جب تم بے بس ہوتے ہو تو اللہ کو پکارتے ہو کیونکہ تمہاری جبلت میں اللہ کا تصور موجود ہے۔ وہ مصیبت کے وقت ہی تمہیں یاد آتا ہے۔ وہی تمہارا معبود ہے۔

۲۔ اِذَا دَعَاہُ: جب اللہ کو پکارے۔ اجابت دعا کے لیے آیت میں یہ شرط عائد کی ہے کہ جب اللہ کو پکارے تو دعا قبول ہو گی۔ اگر کوئی صرف اللہ کو نہیں پکارتا، غیر اللہ کے ساتھ پکارتا ہے تو اجابت دعا کا وعدہ نہیں ہے یا صحیح معنوں میں پکار ہوتی ہی نہیں ہے، صرف زبان ہلاتا ہے۔ اس سے بھی دعا قبول نہ ہو گی لیکن اگر صرف اللہ کو پکارے اور حقیقی معنوں میں پکارے تو اللہ کی طرف سے قبول دعا کا وعدہ ہے۔ جیساکہ فرمایا: ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ ۔۔۔۔ (۴۰ غافر: ۶۰)

اس آیت میں بھی دعا ہونے کی صورت میں قبول دعا کا وعدہ ہے۔ چنانچہ منقول دعا میں آیا ہے:

اللّٰھُمَّ اِنِّی اَدْعُوکَ کَمَا اَمَرْتَنِی فَاسْتَجِبْ لِی کَمَا وَعَدْتَنِی ۔۔۔۔ (التھذیب ۳: ۱۲۱)

اے اللہ! میں تیرے حکم کے مطابق دعا کرتا ہوں اب تو اپنے وعدے کے مطابق قبول فرما۔

لہٰذا یہاں یہ سوال نہیں آسکتا کہ کبھی دعائیں بہت ہوتی ہیں لیکن قبول نہیں ہوتیں۔

۳۔ وَ یَجۡعَلُکُمۡ خُلَفَآءَ الۡاَرۡضِ: اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اللہ نے آنے والی نسلوں کو گزشتہ نسلوں کا جانشین بنایا۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ تمہیں اللہ نے زمین پر اپنا جانشین بنایا ہے کہ اس نے ہر چیز تمہارے اختیار میں رکھی ہے۔ اس طرح اس نے مجموعی طور پر انسان کو زمین میں خلافت عطا کی ہے۔ جیساکہ فرمایا:

ہُوَ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَ اسۡتَعۡمَرَکُمۡ ۔۔۔۔ (۱۱ ہود: ۶۱)

اللہ نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اس میں تمہیں آباد کیا۔

یہ دونوں تفسیریں تدبیری نقطہ نظر سے آیت کے سیاق کے ساتھ مناسب ہیں۔


آیت 62