آیت 66
 

بَلِ ادّٰرَکَ عِلۡمُہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ ۟ بَلۡ ہُمۡ فِیۡ شَکٍّ مِّنۡہَا ۫۟ بَلۡ ہُمۡ مِّنۡہَا عَمُوۡنَ﴿٪۶۶﴾

۶۶۔ بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ماند پڑ گیا ہے، بلکہ وہ اس کے بارے میں شک میں ہیں بلکہ یہ اس کے بارے میں اندھے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ بَلِ ادّٰرَکَ عِلۡمُہُمۡ: اس جملے اور اس کے بعد آنے والے جملوں کی تفسیر و توجیہ میں اہل علم کو بہت اضطراب پیش آیا ہے۔ اس اضطراب کی وجہ لفظ ادّٰرَکَ کے معنی میں مضمر ہے۔ چنانچہ اس لفظ کے ایک معنی فنا کے ہیں۔ اس معنی کو اکثر نے اختیار کیا پھر توجیہ و تاویل اور تکلف کرنا پڑا۔ جب کہ اس لفظ کے کثیر الاستعمال معنی تتابع اور تلاحق کے ہیں۔ کہتے ہیں: دراکا متدار کا یعنی تباعاً واحداً اثر واحد ۔ ادّٰرَکَ اور متدارک یکے بعد دیگرے پیچھے آنے کے معنوں میں ہے۔ اس معنی کے اعتبار سے اس جملے کا واضح مطلب یہ بنتا ہے:

یہ مشرکین آخرت کی نفی میں جس علم کے مدعی ہیں ان کا یہ علم کسی دلیل و برہان پر مستند نہیں ہے۔ بَلِ ادّٰرَکَ عِلۡمُہُمۡ بلکہ ان کا یہ علم تقلیدی ہے۔ اپنے آباء و اجداد سے یکے بعد دیگرے ان تک منتقل ہوا ہے۔

ہم نے ادّٰرَکَ کا ترجمہ ماند پڑ گیا سے کیا ہے چونکہ ان کا علم کسی سند تک نہیں پہنچ پاتا۔ جیسا کہ قرآن نے متعدد آیات میں اس قسم کے تقلیدی عقائد و نظریات کو مسترد کیا ہے۔

بَلۡ ہُمۡ فِیۡ شَکٍّ مِّنۡہَا: وہ اس تقلیدی موقف کو علم کا نام دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔

بَلۡ ہُمۡ مِّنۡہَا عَمُوۡنَ: بلکہ وہ شک کے مرحلے سے بدتر حالت میں ہیں۔ شک کی حالت میں انسان مسئلے کی طرف متوجہ رہتا ہے پھر شک کرتا ہے۔ یہ لوگ ایسے اندھے ہیں کہ اس مسئلے کو اپنے صفحہ ذہن پر نہیں لاتے۔

اہم نکات

۱۔ مشرکین نے اپنا عقیدہ علم کی بنیاد پر نہیں رکھا ہے بلکہ ان کا عقیدہ شک سے بدتر نابینائی کی صورت میں موجود ہے۔


آیت 66