آخرت کا تصور


لَقَدۡ وُعِدۡنَا ہٰذَا نَحۡنُ وَ اٰبَآؤُنَا مِنۡ قَبۡلُ ۙ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔ اس قسم کا وعدہ پہلے بھی ہم سے اور ہمارے باپ دادا سے ہوتا رہا ہے یہ تو قصہ ہائے پارینہ کے سوا کچھ نہیں۔

68۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اسلام ﷺ نے آخرت کا تصور قائم کر کے کوئی انوکھا کام نہیں کیا بلکہ یہ عقیدہ خود مشرکین کے اعتراف کے مطابق تمام سابقہ انبیاء بیان کرتے آئے ہیں۔ اس تصور کو رد کرنے کا مشرکین یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ یہ وعدہ اگر حق ہے اور قیامت آنے والی ہے تو ابھی تک آئی کیوں نہیں؟

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَا تَاۡتِیۡنَا السَّاعَۃُ ؕ قُلۡ بَلٰی وَ رَبِّیۡ لَتَاۡتِیَنَّکُمۡ ۙ عٰلِمِ الۡغَیۡبِ ۚ لَا یَعۡزُبُ عَنۡہُ مِثۡقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الۡاَرۡضِ وَ لَاۤ اَصۡغَرُ مِنۡ ذٰلِکَ وَ لَاۤ اَکۡبَرُ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ٭ۙ﴿۳﴾

۳۔ اور کفار کہتے ہیں: قیامت ہم پر نہیں آئے گی، کہدیجئے: میرے عالم الغیب رب کی قسم وہ تم پر ضرور آکر رہے گی، آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابر بھی (کوئی چیز) اس سے پوشیدہ نہیں ہے اور نہ ذرے سے چھوٹی چیز اور نہ اس سے بڑی مگر یہ کہ سب کچھ کتاب مبین میں ثبت ہے۔

3۔ جو لوگ حیات اخروی کے اس لیے منکر تھے کہ جب انسان کے اجزا بکھر جائیں گے تو اللہ ان کو دوبارہ کیسے جمع کرے گا؟ جواب میں فرمایا: خواہ ذرات سے چھوٹے اجزا میں بکھر جائیں، اللہ کے علم سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ سورہ واقعہ میں فرمایا: وَ لَقَدۡ عَلِمۡتُمُ النَّشۡاَۃَ الۡاُوۡلٰی ، النَّشۡاَۃَ الۡاُوۡلٰی کا تو تمہیں علم ہے۔ تمہاری تخلیق کے لیے جن ارضی عناصر کو بروئے کار لایا گیا ہے وہ بھی دنیا کے اطراف میں منتشر اجزاء تھے جو تمہارے دستر خوان پر جمع ہوئے، جن سے تمہارا خون بنا، نطفہ بنا، پھر تمہاری تخلیق ہوئی۔