ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ یُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ وَ یُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ وَ اَنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ﴿۶۱﴾

۶۱۔ ایسا اس لیے ہے کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور یہ کہ اللہ بڑا سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ ہُوَ الۡبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡکَبِیۡرُ﴿۶۲﴾

۶۲۔ یہ اس لیے ہے کہ اللہ ہی برحق ہے اور اس کے سوا جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور یہ کہ اللہ بڑا برتر ہے۔

58 تا 62۔ ان آیات میں ربط اس طرح ہے :

i۔ جو راہ خدا میں ہجرت کرتے ہیں اور مارے جاتے ہیں یا فوت ہو جاتے ہیں، ان کو اللہ رزق حسن عنایت فرماتا ہے۔ii ۔ بنا بر ایں یہ بات سنت الہی کے مطابق ہے کہ بدلہ لینے کے بعد ظالم اور مظلوم برابر ہو گئے۔ لیکن ظالم اس مظلوم پر پھر ظلم اور زیادتی کرے ثُمَّ بُغِیَ عَلَیۡہِ تو اللہ تعالیٰ اس مظلوم کی مدد کرے گا۔ یعنی مظلوم کی طرف سے انتقام لینا جائز تھا، ظالم کو دوبارہ زیادتی کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ iii۔ وہ اس لیے کہ اللہ کی یہ بھی سنت ہے کہ اللہ ظلم کو عدل سے اور نا انصافی کو انصاف سے ایسے بدلتا ہے جیسے رات کو دن سے بدلتا ہے۔iv ۔ یہ سب اس لیے کہ اس کائنات میں صرف اللہ کی ذات ہی حقیقت ہے۔ یعنی حقیقی اختیار اور تصرف کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے اور جن غیر اللہ کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ باطل ہیں۔

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ۫ فَتُصۡبِحُ الۡاَرۡضُ مُخۡضَرَّۃً ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَطِیۡفٌ خَبِیۡرٌ ﴿ۚ۶۳﴾

۶۳۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا تو (اس سے) زمین سرسبز ہو جاتی ہے؟ اللہ یقینا بڑا مہربان، بڑا باخبر ہے۔

63۔ لطیف کا معنی مہربان لیا جائے تو مطلب بنتا ہے کہ یہ اللہ کی رحمت و مہربانی ہے کہ زمین کی سر سبزی سے نہ صرف انسانوں کی تمام ضروریات کو پورا کیا بلکہ انسانوں کے رزق کی تسکین کا بھی سامان فراہم فرمایا۔ اگر لطیف کے معنی باریک بین لیا جائے تو مطلب یہ بنتا ہے: زمین کو سرسبز کر کے انسان کی ہر چھوٹی بڑی ضرورت کو پورا کیا، جن چھوٹی باتوں کی ابھی تک انسانوں کو آگاہی بھی نہیں ہے۔

لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَہُوَ الۡغَنِیُّ الۡحَمِیۡدُ﴿٪۶۴﴾

۶۴۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور اللہ ہی بے نیاز اور لائق ستائش ہے۔

64۔ آسمان اور زمین اس کی ملکیت ہیں۔ اس کے لیے آسمان سے پانی نازل کرنا اور زمین کو سرسبز کرنا اپنی ملکیت میں تصرف ہے۔ یہ ملکیت کسی احتیاج اور ضرورت کے تحت نہیں ہے۔ چونکہ ہر مالک اپنے مملوک کا محتاج ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے مملوک کا محتاج نہیں ہے۔ اسی لیے آیت کے اختتام میں فرمایا وَ اِنَّ اللّٰہَ لَہُوَ الۡغَنِیُّ الۡحَمِیۡدُ یعنی اللہ بے نیاز ہے۔

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ وَ الۡفُلۡکَ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ یُمۡسِکُ السَّمَآءَ اَنۡ تَقَعَ عَلَی الۡاَرۡضِ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ﴿۶۵﴾

۶۵۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمہارے لیے زمین کی ہر چیز کو مسخر کر دیا ہے اور وہ کشتی بھی جو سمندر میں بحکم خدا چلتی ہے اور اسی نے آسمان کو تھام رکھا ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر وہ زمین پر گرنے نہ پائے، یقینا اللہ لوگوں پر بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے۔

65۔ آسمان سے مراد وہ سب اجرام فلکی ہو سکتے ہیں جو فضاؤں میں معلق ہیں۔ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ میں ممکن ہے وہ اجرام مراد ہوں جو روزانہ لاکھوں کی تعداد میں زمین کی طرف آتے ہیں، فضا میں پاش پاش ہو جاتے ہیں اور ان کے ذرات زمین پر گرتے ہیں۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَحۡیَاکُمۡ ۫ ثُمَّ یُمِیۡتُکُمۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡکُمۡ ؕ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَکَفُوۡرٌ﴿۶۶﴾

۶۶۔ اور اسی نے تمہیں حیات عطا کی پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے پھر وہی تمہیں زندہ کرے گا، انسان تو یقینا بڑا ہی ناشکرا ہے۔

66۔ انسان کو زندگی عنایت فرما کر ارتقا کا موقع فراہم کیا۔ پھر موت آنے کے بعد دوبارہ زندگی عنایت فرمائے گا۔ یہ زندگی ابدی زندگی ہو گی۔ پہلی مختصر زندگی سے دوسری ابدی زندگی کو سنوارنا انسان کے لیے بہت آسان تھا۔ لیکن یہ انسان بڑا ہی ناشکرا ثابت ہوا۔

لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا ہُمۡ نَاسِکُوۡہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الۡاَمۡرِ وَ ادۡعُ اِلٰی رَبِّکَ ؕ اِنَّکَ لَعَلٰی ہُدًی مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿۶۷﴾

۶۷۔ ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک دستور مقرر کیا ہے جس پر وہ چلتی ہے لہٰذا وہ اس معاملے میں آپ سے جھگڑا نہ کریں اور آپ اپنے رب کی طرف دعوت دیں، آپ یقینا راہ راست پر ہیں۔

67۔ مشرکین قربانی کے بارے میں یہ قیاس کیا کرتے تھے کہ مسلمان جو خود مارتے ہیں اس کو کھاتے ہیں، جو خدا مارتا ہے اسے نہیں کھاتے۔ یعنی مردار۔

اس آیت کا ایک ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے: ہر امت کے لیے ہم نے ایک طریقہ عبادت مقرر کیا ہے۔

ان کافروں کو یہ حق حاصل نہیں کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو طریقہ عبادت پیش کیا ہے اس میں جھگڑا کریں کیونکہ آپ نے جو طریقہ پیش کیا ہے وہ کوئی انوکھی چیز نہیں ہے۔ ہر امت کے لیے ایک طریقہ عبادت ہوا کرتا ہے۔

وَ اِنۡ جٰدَلُوۡکَ فَقُلِ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔ اور اگر یہ لوگ آپ سے جھگڑا کریں تو کہدیجئے: جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

اَللّٰہُ یَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۶۹﴾

۶۹۔ اللہ بروز قیامت تمہارے درمیان ان چیزوں کا فیصلہ کرے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔

اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ فِیۡ کِتٰبٍ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ﴿۷۰﴾

۷۰۔ کیا آپ کو علم نہیں کہ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے اللہ ان سب کو جانتا ہے؟ یہ سب یقینا ایک کتاب میں درج ہیں، یہ اللہ کے لیے یقینا نہایت آسان ہے۔