آیت 65
 

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ وَ الۡفُلۡکَ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ یُمۡسِکُ السَّمَآءَ اَنۡ تَقَعَ عَلَی الۡاَرۡضِ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ﴿۶۵﴾

۶۵۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمہارے لیے زمین کی ہر چیز کو مسخر کر دیا ہے اور وہ کشتی بھی جو سمندر میں بحکم خدا چلتی ہے اور اسی نے آسمان کو تھام رکھا ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر وہ زمین پر گرنے نہ پائے، یقینا اللہ لوگوں پر بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمۡ: اس آیت کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو البقرۃ :۲۹۔

۲۔ وَ الۡفُلۡکَ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ بِاَمۡرِہٖ: سمندروں میں چلنے والی کشتیاں اگرچہ انسانی صنعت و حرفت کا نتیجہ ہیں لیکن پانی کا مزاج جو اپنے سے کم وزن چیزوں کو اپنی پشت پر اٹھا لیتا ہے اور ہوا کی جنبش جو اس کشتی کو اپنے مقصد کی طرف چلا لیتی ہے یہ سب اللہ کے تخلیقی کرشمے ہیں لہٰذا کشتی امر خدا سے چلتی ہے۔

۳۔ وَ یُمۡسِکُ السَّمَآءَ اَنۡ تَقَعَ عَلَی الۡاَرۡضِ: السَّمَآءَ سے اجرام ہی مراد ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان اجرام کو ایک ایسے نظام سے منسلک کر دیا ہے کہ ہر ایک اپنے اپنے مدار میں محو گردش ہے۔ ایک دوسرے کے دائرہ مدار سے دور رہتے ہیں۔ ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہیں۔ یہ سب کچھ اس قانون کی وجہ سے ہے جو اس کے خالق نے ان کو منظم رکھنے کے لیے وضع کیا ہے۔ لوگ کائنات پر حاکم اس قانون کا مطالعہ کرتے ہیں لیکن مقنن کی طرف ان کی توجہ نہیں جاتی کہ کس نے اجرام فلکی کو کشش یا کسی اور طاقت کے ذریعے اس بیکراں فضا میں سرگرداں کیے بغیر ایک معین اور منظم سمت کی طرف چلا رکھا ہے کہ اربوں سال میں ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہیں آتا۔

جس خالق نے اجرام کو بغیر ستون کے اٹھا رکھا ہے بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا (۱۳ رعد:۲) وہی اس آسمان کو بغیر ستون کے مربوط رکھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بغیر قابل دید ستون کے اٹھا رکھا ہے۔ اسی غیر مرئی ستون سے تھامے رکھتا ہے۔

۴۔ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ: ایک دن ایسا آئے گا کہ اللہ کی طرف سے ان اجرام کو اذن ہو جائے گا کہ وہ اس نظام کو چھوڑ دیں او اس نامرئی ستون کو ہٹا دیاجائے گا۔ تو یَوۡمَ تُبَدَّلُ الۡاَرۡضُ غَیۡرَ الۡاَرۡضِ وَ السَّمٰوٰتُ ۔۔۔ ( ۱۴ ابراہیم:۴۸) نیز اِذَا السَّمَآءُ انۡفَطَرَتۡ وَ اِذَا الۡکَوَاکِبُ انۡتَثَرَتۡ (انفطار:۱۔۲) کا وقت آجائے گا۔

۵۔ اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ: اللہ کی مہربانی ہے کہ دن رات میں گرنے والے لاکھوں آسمانی پتھروں سے اہل ارض کو اپنے حفظ و امان میں رکھا ہے۔

یہ سب تدبیر کائنات سے مربوط ہیں جو صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے کسی غیر اللہ کا اس میں دخل نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ نے خشکی اور سمندر (بر و بحر) کو انسان کے لیے مسخر فرمایا ہے۔

۲۔ آسمانوں کو اللہ نے اپنے دست قدرت سے تھامے رکھا ہے۔


آیت 65