وَ یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَمۡ یُنَزِّلۡ بِہٖ سُلۡطٰنًا وَّ مَا لَیۡسَ لَہُمۡ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ نَّصِیۡرٍ﴿۷۱﴾

۷۱۔ اور یہ لوگ اللہ کے علاوہ ایسی چیزوں کی بندگی کرتے ہیں جن کی نہ اس نے کوئی دلیل نازل کی ہے نہ اس کے بارے میں یہ کوئی علم رکھتے ہیں اور ظالموں کا تو کوئی مددگار نہیں ہے۔

71۔ کسی عقیدے کو اختیار یا رد کرنے کے لیے دلیل ہونی چاہیے۔ اگر کسی وجہ سے دلیل قائم نہیں ہو سکتی تو اس پر علم ہو تو بھی عقیدہ رکھنا درست ہے۔

کسی موقف کی سند اور تائید کے لیے دلیل اور علم نہ ہو تو کوئی اور سند نہیں جو اس مؤقف کی حمایت کرے۔

وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ تَعۡرِفُ فِیۡ وُجُوۡہِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا الۡمُنۡکَرَ ؕ یَکَادُوۡنَ یَسۡطُوۡنَ بِالَّذِیۡنَ یَتۡلُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا ؕ قُلۡ اَفَاُنَبِّئُکُمۡ بِشَرٍّ مِّنۡ ذٰلِکُمۡ ؕ اَلنَّارُ ؕ وَعَدَہَا اللّٰہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿٪۷۲﴾

۷۲۔ اور جب انہیں ہماری صریح آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو آپ کافروں کے چہروں پر انکار کے آثار دیکھتے ہیں اور جو لوگ ہماری آیات پڑھ کر انہیں سناتے ہیں یہ ان پر حملہ کرنے کے قریب ہوتے ہیں، کہدیجئے: کیا میں تمہیں اس سے بھی بری چیز کی خبر دوں؟ وہ آگ ہے جس کا اللہ نے کفار سے وعدہ کر رکھا ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔

72۔۔ تقریبا ہر گمراہ کا یہی مزاج ہوتا ہے۔ جب اسے حق کی بات سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا رویہ وہی ہوتا ہے، جس کا اس آیت میں ذکر ہے۔ آیات الٰہی کی تلاوت سے یہ کفار جس آتش حسد میں جلتے ہیں، اس سے بدتر تو ان کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ اس لیے یہ لوگ دنیا و آخرت دونوں میں جلنے والے ہیں۔

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَنۡ یَّخۡلُقُوۡا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجۡتَمَعُوۡا لَہٗ ؕ وَ اِنۡ یَّسۡلُبۡہُمُ الذُّبَابُ شَیۡئًا لَّا یَسۡتَنۡقِذُوۡہُ مِنۡہُ ؕ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الۡمَطۡلُوۡبُ﴿۷۳﴾

۷۳۔ اے لوگو! ایک مثال دی جاتی ہے ، اسے سنو: اللہ کے سوا جن معبودوں کو تم پکارتے ہو وہ ایک مکھی بنانے پر بھی ہرگز قادر نہیں ہیں خواہ اس کام کے لیے وہ سب جمع ہو جائیں، اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو یہ اس سے اسے چھڑا بھی نہیں سکتے، طالب اور مطلوب دونوں ناتواں ہیں۔

73۔ مدد طلب کرنے والے خود بے بس ہیں اور جس سے مدد طلب کی جاتی ہے اس کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ کمزور ترین مخلوق مکھی کے سامنے بھی بے بس ہے۔ اس طرح ان کا حال یہ ہے کہ خود بھی کمزور ہیں اور ان کی امیدوں کا مرکز بھی کمزور ہے۔

مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ﴿۷۴﴾

۷۴۔ لوگوں نے اللہ کی ویسی قدر نہیں کی جیسی قدر کرنی چاہیے تھی، اللہ یقینا بڑا طاقت رکھنے والا، غالب آنے والا ہے۔

74۔ اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ ناقدری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ایک مخلوق کو اپنا رب بنا لیتے ہیں اور اس سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں۔

اَللّٰہُ یَصۡطَفِیۡ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ ﴿ۚ۷۵﴾

۷۵۔ اللہ فرشتوں اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرتا ہے اللہ یقینا خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے۔

یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ﴿۷۶﴾

۷۶۔ جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اسے سب کا علم ہے اور سب معاملات کی برگشت اللہ ہی کی طرف ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿ۚٛ۷۷﴾۩

۷۷۔ اے ایمان والو! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو نیز نیک عمل انجام دو، امید ہے کہ (اس طرح) تم فلاح پا جاؤ ۔

77۔ فلاح و نجات کے اسباب، رکوع و سجود اور ہر قدم پر اللہ کی بندگی کے دستور پر چلنے اور نیک عمل انجام دینے میں منحصر ہیں۔ یعنی ایمان کے بعد جن چیزوں پر ایمان لایا ہے، ان پر عمل کرنے میں نجات ہے۔

وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ؕ مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ ۚۖ فَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰہِ ؕ ہُوَ مَوۡلٰىکُمۡ ۚ فَنِعۡمَ الۡمَوۡلٰی وَ نِعۡمَ النَّصِیۡرُ﴿٪۷۸﴾

۷۸۔ اور راہ خدا میں ایسے جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے، اس نے تمہیں منتخب کیا ہے اور دین کے معاملے میں تمہیں کسی مشکل سے دوچار نہیں کیا، یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے۔ اسی نے تمہارا نام مسلمان رکھا اس (قرآن) سے پہلے اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسول تم پر گواہ رہے اور تم لوگوں پر گواہ رہو، لہٰذا نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ کے ساتھ متمسک رہو، وہی تمہارا مولا ہے سو وہ بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے۔

78۔ خطاب اہل ایمان کی ایک جماعت سے ہے کہ ان کو اللہ نے چند باتوں سے نوازا ہے۔ i۔ ان کو اللہ نے راہ خدا میں جہاد کے لیے منتخب کیا ہے۔ ii۔ ان کو ایک سہل اور آسان شریعت عنایت فرمائی ہے جس میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ واضح رہے کہ نفی حرج، ایک ضابطہ ہے جس کی رو سے حرج (غیر معمولی مشقت) پر مشتمل کوئی حکم شریعت میں موجود نہیں ہے اور اگر کسی غیر حرجی حکم پر معروضی طور پر حرج لازم آئے تو اس حکم کی نفی ہو جاتی ہے۔ مثلا وضو کے لیے پانی استعمال کرنے میں اگر حرج ہے یعنی غیر معمولی مشقت برداشت کرنا پڑے تو وضو کا حکم اٹھ جاتا ہے اور اس کی جگہ تیمم کا حکم آتا ہے۔ نفی حرج اس امت پر اللہ کی رحمت ہے۔iii ۔ تمام انبیاء کے پیروکار مسلم کہلاتے ہیں۔ ابراہیمی، موسوی، مسیحی اور محمدی نہیں کہلاتے۔ حالانکہ سیاق آیت سے واضح ہے کہ اس الٰہی پیغام کے تمام ماننے والوں کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے مسلم نام رکھا گیا ہے۔ ہُوَسَمّٰىكُمُ اور اجْتَبٰىكُمْ کے مخاطبین کے بارے میں مولانا مودودی کا سہو قلم اور تضاد بیانی قابل مطالعہ ہے۔

یہ خطاب مومنین کی ایک برگزیدہ جماعت کے لیے ہونے پر قرائن موجود ہیں۔ وہ ہیں: اجۡتَبٰىکُمۡ اللہ نے تمہیں منتخب کیا ہے۔ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ تمہارے باپ ابراہیم۔ وَتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ اور تم لوگوں پر گواہ رہو۔ ظاہر ہے کہ سب لوگوں میں یہ باتیں نہیں پائی جاتیں۔ یہ ایسا ہے کہ جیسا کہ بنی اسرائیل سے خطاب میں فرمایا: وَ جَعَلَکُمۡ مُّلُوۡکًا ۔ (مائدہ: 20) ظاہر ہے سب کو بادشاہ نہیں بنایا۔