وَ الَّذِیۡنَ سَعَوۡا فِیۡۤ اٰیٰتِنَا مُعٰجِزِیۡنَ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ﴿۵۱﴾

۵۱۔ اور جو لوگ ہماری آیات کے خلاف سعی کرتے ہیں کہ (ہم کو) مغلوب کریں وہ اہل جہنم ہیں۔

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤی اَلۡقَی الشَّیۡطٰنُ فِیۡۤ اُمۡنِیَّتِہٖ ۚ فَیَنۡسَخُ اللّٰہُ مَا یُلۡقِی الشَّیۡطٰنُ ثُمَّ یُحۡکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿ۙ۵۲﴾

۵۲۔ اور (اے رسول) آپ سے پہلے ہم نے نہ کوئی رسول بھیجا اور نہ نبی مگر جب اس نے (کامیابی کی) تمنا کی تو شیطان نے اس کی آرزو میں خلل اندازی کی لیکن اللہ شیطان کے خلل کو نابود کرتا ہے، پھر اللہ اپنی آیات کو محکم کرتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

52۔ غیر امامیہ کے مصادر میں روایت کی گئی ہے: نبی اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دل میں بات آ گئی کہ کاش قرآن میں کوئی ایسی آیت نازل ہو جائے جس سے کفار قریش کی نفرت دور ہو۔ ایک دن آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قریش کی ایک بڑی مجلس میں تشریف فرما تھے۔ آپ پر سورہ نجم نازل ہوا: اَفَرَءَیۡتُمُ اللّٰتَ وَ الۡعُزّٰی ﴿﴾ وَ مَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الۡاُخۡرٰی ﴿﴾ اس جگہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان سے یہ عبارت جاری ہوئی: تلک الغرانیق العلی وان شفاعتھن لترتجی ۔ ( تحفۃ الأحوذی ج 3 ص147 کتاب السفر باب ما جاء فی السجدۃ فی النجم ) ”یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں ان کی شفاعت کی ضرور امید کی جاتی ہے۔“ یہ حدیث غرانیق کے نام سے مشہور ہے۔ حافظ حدیث ابن حجر اس حدیث کو صحیح تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ”۔۔۔ مگر اسناد کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی کوئی اصل ضرور ہے۔“ اس کے ساتھ ایک طریق سے بسند صحیح بھی نقل ہوئی ہے۔ ملاحظہ ہو شرح صحیح البخاری۔

ابو بکر جصاص زمخشری اور ابن جریر جیسی قد آور علمی شخصیات اس روایت کو صحیح تسلیم کرتی ہیں۔ چنانچہ رشدی نے اپنی شیطانی کتاب میں اسی قسم کی روایات کو اساس بنا کر رسول اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے۔

جبکہ سورہ نجم بعثت کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوا ہے اور سورہ حجر کے مدنی ہونے کی صورت میں تو واضح ہے کہ ہجرت کے بعد نازل ہوا اور اگر مکی فرض کر لیا جائے تو واقعہ معراج کے بعد نازل ہوا ہے، کیونکہ اس روایت میں سورہ بنی اسرائیل کی ایک آیت کے نزول کا بھی ذکر ہے نیز سورہ نجم کی پوری عبارت بتوں کی مذمت میں ہے۔ درمیان میں انہی بتوں کے حق میں کوئی جملہ آجائے تو اس تضاد بیانی سے مشرکین کیسے متاثر ہو سکتے ہیں؟ بہرحال اس روایت کے باطل ہونے پر دیگر بہت سے شواہد موجود ہیں۔ اسی لیے امامیہ کے ساتھ بہت سے غیر امامیہ محدثین نے اس روایت کو عصمت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منافی قرار دے کر رد کیا ہے۔ اس بے اساس روایت کو مستشرقین نے اپنی اسلام دشمنی کے اظہار کے لیے اساس قرار دیا اور اسے اچھالنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ حالانکہ یہ روایت، تاریخ نزول قرآن، متن اور سند کے اعتبار سے قابل توجہ ہی نہیں ہے۔

لِّیَجۡعَلَ مَا یُلۡقِی الشَّیۡطٰنُ فِتۡنَۃً لِّلَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ وَّ الۡقَاسِیَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ لَفِیۡ شِقَاقٍۭ بَعِیۡدٍ ﴿ۙ۵۳﴾

۵۳۔ تاکہ شیطان کی خلل اندازی کو ان لوگوں کے لیے آزمائش قرار دے جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جن کے دل جامد ہیں اور ظالم لوگ یقینا بہت گہرے عناد میں مبتلا ہیں۔

53۔ شیطان کو خلل اندازی سے اللہ نے قانون کے ذریعے تو روکا ہے، لیکن طاقت کے ذریعے نہیں روکا۔ اسی طرح ظالم کو قانون کے ذریعے روکا ہے، طاقت کے ذریعے نہیں روکا۔ فرعونوں، نمرودوں کو مہلت مل جاتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں بنی امیہ اور بنی عباس کے ظلم و نا انصافیوں کو بھی مہلت ملی۔ یہ مہلت کیوں ملتی ہے؟ اللہ فرماتا ہے: اس مہلت سے وہ لوگ فاش ہو جاتے ہیں، جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جن کے دلوں میں حق پذیری کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ چنانچہ اس امتحان کے نتیجے میں فاش ہونے والوں کا تسلسل آج بھی جاری ہے اور بنی امیہ، خاص کر یزید کے حامیوں کی کمی نہیں ہے۔

وَّ لِیَعۡلَمَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَیُؤۡمِنُوۡا بِہٖ فَتُخۡبِتَ لَہٗ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَہَادِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿۵۴﴾

۵۴۔ اور اس لیے بھی ہے کہ جنہیں علم دیا گیا ہے وہ جان لیں کہ یہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے، پس وہ اس پر ایمان لے آئیں اور اللہ کے سامنے ان کے دل نرم ہو جائیں اور اللہ ایمان والوں کو یقینا راہ راست کی ہدایت کرتا ہے۔

54۔ کڑی آزمائش کے طویل ہونے سے وہ لوگ چھن کر سامنے آتے ہیں جنہیں ان آزمائشوں میں موجود مصلحتوں کا علم ہے اور ظلم و بربریت کے طویل ہونے سے ان کا ایمان متزلزل نہیں ہوا۔ بلکہ ان کے دل مزید نرم ہوتے ہیں۔

وَ لَا یَزَالُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّنۡہُ حَتّٰی تَاۡتِیَہُمُ السَّاعَۃُ بَغۡتَۃً اَوۡ یَاۡتِیَہُمۡ عَذَابُ یَوۡمٍ عَقِیۡمٍ﴿۵۵﴾

۵۵۔ اور کافر لوگ تو اس کی طرف سے ہمیشہ اسی شک میں مبتلا رہیں گے یہاں تک کہ ان پر یکایک قیامت آ جائے گی یا نامراد دن کا عذاب ان پر آ جائے گا۔

اَلۡمُلۡکُ یَوۡمَئِذٍ لِّلّٰہِ ؕ یَحۡکُمُ بَیۡنَہُمۡ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِیۡ جَنّٰتِ النَّعِیۡمِ﴿۵۶﴾

۵۶۔ اس روز بادشاہی صرف اللہ ہی کی ہو گی، وہی ان کے درمیان فیصلہ کرے گا، لہٰذا جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک اعمال بجا لائے وہ نعمتوں والی جنتوں میں ہوں گے۔

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا فَاُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ﴿٪۵۷﴾

۵۷۔ اور جو کافر ہوئے اور ہماری آیات کی تکذیب کرتے رہے پس ان کے لیے ذلت آمیز عذاب ہو گا۔

وَ الَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ثُمَّ قُتِلُوۡۤا اَوۡ مَاتُوۡا لَیَرۡزُقَنَّہُمُ اللّٰہُ رِزۡقًا حَسَنًا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَہُوَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ﴿۵۸﴾

۵۸۔ اور جنہوں نے راہ خدا میں ہجرت اختیار کی پھر وہ مارے گئے یا مر گئے انہیں اللہ یقینا اچھی روزی سے ضرور نوازے گا اور رزق دینے والوں میں یقینا اللہ ہی بہترین ہے۔

لَیُدۡخِلَنَّہُمۡ مُّدۡخَلًا یَّرۡضَوۡنَہٗ ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَعَلِیۡمٌ حَلِیۡمٌ﴿۵۹﴾

۵۹۔ وہ ایسی جگہ میں انہیں ضرور داخل فرمائے گا جسے وہ پسند کریں گے اور اللہ یقینا بڑا دانا، بڑا بردبار ہے۔

ذٰلِکَ ۚ وَ مَنۡ عَاقَبَ بِمِثۡلِ مَا عُوۡقِبَ بِہٖ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیۡہِ لَیَنۡصُرَنَّہُ اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوۡرٌ﴿۶۰﴾

۶۰۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن اگر کوئی شخص اتنا ہی بدلہ لے جتنا سخت برتاؤ اس کے ساتھ کیا گیا تھا پھر اس پر زیادتی بھی کی جائے تو اللہ اس کی ضرور مدد فرمائے گا، بتحقیق اللہ بڑا درگزر کرنے والا معاف کرنے والا ہے۔