توحید در حکومت و ولایت


اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتۡ اَوۡدِیَۃٌۢ بِقَدَرِہَا فَاحۡتَمَلَ السَّیۡلُ زَبَدًا رَّابِیًا ؕ وَ مِمَّا یُوۡقِدُوۡنَ عَلَیۡہِ فِی النَّارِ ابۡتِغَآءَ حِلۡیَۃٍ اَوۡ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثۡلُہٗ ؕ کَذٰلِکَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡحَقَّ وَ الۡبَاطِلَ ۬ؕ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذۡہَبُ جُفَآءً ۚ وَ اَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ ؕ کَذٰلِکَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ ﴿ؕ۱۷﴾

۱۷۔ اللہ نے آسمانوں سے پانی برسایا پھر نالے اپنی گنجائش کے مطابق بہنے لگے پھر سیلاب نے پھولے ہوئے جھاگ کو اٹھایا اور ان (دھاتوں) پر بھی ایسے ہی جھاگ اٹھتے ہیں جنہیں لوگ زیور اور سامان بنانے کے لیے آگ میں تپاتے ہیں، اس طرح اللہ حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے، پھر جو جھاگ ہے وہ تو ناکارہ ہو کر ناپید ہو جاتا ہے اور جو چیز لوگوں کے فائدے کی ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے، اللہ اسی طرح مثالیں پیش کرتا ہے۔

17۔ جھاگ پانی کو ڈھانپ دیتا ہے۔ وقتی طور پر صرف جھاگ نظر آتا ہے اور وہی بظاہر اچھل کود کرتا ہے اور پانی کا حیات بخش ذخیرہ اس جھاگ کے نیچے موجود ہے جو نظر نہیں آتا۔ اسی طرح دھات کو تپا کر کارآمد بنایا جاتا ہے تو میل کچیل اوپر آتا ہے اور صرف وہی نظر آتا ہے۔ باطل بھی اس جھاگ اور خس و خاشاک کی مانند وقتی اچھل کود کرتا ہے۔ بصیرت رکھنے والے، باطل کی وقتی ہنگامہ خیزی اور شورش سے متاثر نہیں ہوتے، بلکہ وہ حق کے ظہور کا انتظار کرتے ہیں۔

وَ الَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ثُمَّ قُتِلُوۡۤا اَوۡ مَاتُوۡا لَیَرۡزُقَنَّہُمُ اللّٰہُ رِزۡقًا حَسَنًا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَہُوَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ﴿۵۸﴾

۵۸۔ اور جنہوں نے راہ خدا میں ہجرت اختیار کی پھر وہ مارے گئے یا مر گئے انہیں اللہ یقینا اچھی روزی سے ضرور نوازے گا اور رزق دینے والوں میں یقینا اللہ ہی بہترین ہے۔

لَیُدۡخِلَنَّہُمۡ مُّدۡخَلًا یَّرۡضَوۡنَہٗ ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَعَلِیۡمٌ حَلِیۡمٌ﴿۵۹﴾

۵۹۔ وہ ایسی جگہ میں انہیں ضرور داخل فرمائے گا جسے وہ پسند کریں گے اور اللہ یقینا بڑا دانا، بڑا بردبار ہے۔

ذٰلِکَ ۚ وَ مَنۡ عَاقَبَ بِمِثۡلِ مَا عُوۡقِبَ بِہٖ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیۡہِ لَیَنۡصُرَنَّہُ اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوۡرٌ﴿۶۰﴾

۶۰۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن اگر کوئی شخص اتنا ہی بدلہ لے جتنا سخت برتاؤ اس کے ساتھ کیا گیا تھا پھر اس پر زیادتی بھی کی جائے تو اللہ اس کی ضرور مدد فرمائے گا، بتحقیق اللہ بڑا درگزر کرنے والا معاف کرنے والا ہے۔

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ یُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ وَ یُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ وَ اَنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ﴿۶۱﴾

۶۱۔ ایسا اس لیے ہے کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور یہ کہ اللہ بڑا سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ ہُوَ الۡبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡکَبِیۡرُ﴿۶۲﴾

۶۲۔ یہ اس لیے ہے کہ اللہ ہی برحق ہے اور اس کے سوا جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور یہ کہ اللہ بڑا برتر ہے۔

58 تا 62۔ ان آیات میں ربط اس طرح ہے :

i۔ جو راہ خدا میں ہجرت کرتے ہیں اور مارے جاتے ہیں یا فوت ہو جاتے ہیں، ان کو اللہ رزق حسن عنایت فرماتا ہے۔ii ۔ بنا بر ایں یہ بات سنت الہی کے مطابق ہے کہ بدلہ لینے کے بعد ظالم اور مظلوم برابر ہو گئے۔ لیکن ظالم اس مظلوم پر پھر ظلم اور زیادتی کرے ثُمَّ بُغِیَ عَلَیۡہِ تو اللہ تعالیٰ اس مظلوم کی مدد کرے گا۔ یعنی مظلوم کی طرف سے انتقام لینا جائز تھا، ظالم کو دوبارہ زیادتی کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ iii۔ وہ اس لیے کہ اللہ کی یہ بھی سنت ہے کہ اللہ ظلم کو عدل سے اور نا انصافی کو انصاف سے ایسے بدلتا ہے جیسے رات کو دن سے بدلتا ہے۔iv ۔ یہ سب اس لیے کہ اس کائنات میں صرف اللہ کی ذات ہی حقیقت ہے۔ یعنی حقیقی اختیار اور تصرف کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے اور جن غیر اللہ کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ باطل ہیں۔