اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَتۡلُوۡنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ؕ اُولٰٓئِکَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿۱۲۱﴾٪

۱۲۱۔ جنہیں ہم نے کتاب عنایت کی ہے (اور) وہ اس کا حق تلاوت ادا کرتے ہیں، وہی لوگ اس (قرآن) پر ایمان لائیں گے اور جو اس سے کفر اختیار کرے گا پس وہی گھاٹے میں ہے۔

121۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: حق تلاوت ادا کرنے والے لوگ وہ ہیں جو آیات کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے ہیں اور انہیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔ اس کے وعدوں کی امید رکھتے ہیں۔ اس کی تنبیہوں سے خائف رہتے ہیں۔ اس کے قصوں سے عبرت حاصل کرتے ہیں اس کے اوامر کی تعمیل کرتے ہیں اور اس کے نواہی سے باز رہتے رہتے ہیں۔ (ارشاد القلوب 1 : 78)

یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَنِّیۡ فَضَّلۡتُکُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۲۲﴾

۱۲۲۔ اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تمہیں عطا کی ہے اور یہ کہ میں نے تمہیں اہل عالم پر فضیلت دی ہے۔

وَ اتَّقُوۡا یَوۡمًا لَّا تَجۡزِیۡ نَفۡسٌ عَنۡ نَّفۡسٍ شَیۡئًا وَّ لَا یُقۡبَلُ مِنۡہَا عَدۡلٌ وَّ لَا تَنۡفَعُہَا شَفَاعَۃٌ وَّ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ﴿۱۲۳﴾

۱۲۳۔اور اس روز سے ڈرو جب نہ کوئی کسی کے کچھ کام آئے گا، نہ اس سے معاوضہ قبول ہو گا، نہ شفاعت اسے فائدہ پہنچا سکے گی اور نہ ہی انہیں کوئی مدد مل سکے گی۔

وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ؕ قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ قَالَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۲۴﴾

۱۲۴۔ اور ( وہ وقت یاد رکھو)جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا اور انہوں نے انہیں پورا کر دکھایا، ارشاد ہوا : میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا: اور میری اولاد سے بھی؟ ارشاد ہوا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔

124۔ الٰہی دعوت کے بانی، ارتقائی سفر کے میر کارواں، تحریکِ جہاد کے اولین قائد، بیت اللہ کے معمار، اللہ کی راہ میں پہلے مہاجر اور تاریخ انسانیت کے عظیم بت شکن ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے۔

آپ تین بڑے پیشواؤں حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ علیہما السلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جد اعلیٰ ہیں۔ قدیم کلدانی سلطنت بابل اور موجودہ عراق کے ایک شہر اور میں پیدا ہوئے۔ آپ علیہ السلام نے اپنے فرزندوں کے ذریعے دنیا میں دعوت توحید کے دو مراکز قائم کیے۔ ایک مکہ میں اور دوسرا فلسطین میں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ اور حضرت اسحاق علیہ السلام کو فلسطین میں متعین فرمایا۔ قریش حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں اور بنی اسرائیل حضرت اسحاق علیہ السلام کی۔

یہودیوں کی بد عہدی اور نا شکری، منصب امامت کو ظالموں سے دور رکھنا، بیت اللہ کی تعمیر، اسے پاکیزہ رکھنے کی ذمہ داری سونپنا، تبدیلی قبلہ، نسل اسماعیل علیہ السلام کے لیے دعا، یہ سب کچھ بتاتا ہے کہ انسانیت کی امامت کے لیے نسل اسرائیل کی جگہ اولاد اسماعیل کو منتخب کر لیا گیا ہے۔

اللہ کا فضل و کرم اندھی بانٹ نہیں، بلکہ استحقاق اور اہلیت کی بناء پر ہے اور استحقاق پرکھنے کے لیے امتحان اور میدان عمل ضروری ہیں۔

بعض علماء نے فرمایا ہے: لوگوں کی چار قسمیں ہو سکتی ہیں :٭وہ لوگ جو ساری زندگی ظالم رہے ہوں۔٭ جو آخری عمر میں ظالم رہے ہوں۔ ٭جو ابتدائی زندگی میں ظالم رہے ہوں۔٭ جو زندگی میں کبھی ظالم نہ رہے ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان اس سے بالاتر ہے کہ وہ پہلی اور دوسری قسم کے لوگوں کے لیے امامت کی خواہش کرتے۔ باقی دو قسمیں رہ جاتی ہیں، جن میں سے ایک کے لیے امامت کی نفی کی ہے۔ بنا برایں چوتھی قسم کے لیے امامت ثابت ہو جاتی ہے اور ساتھ عصمت بھی۔

وَ اِذۡ جَعَلۡنَا الۡبَیۡتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمۡنًا ؕ وَ اتَّخِذُوۡا مِنۡ مَّقَامِ اِبۡرٰہٖمَ مُصَلًّی ؕ وَ عَہِدۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ اَنۡ طَہِّرَا بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الۡعٰکِفِیۡنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ﴿۱۲۵﴾

۱۲۵۔ اور (وہ وقت یاد رکھو) جب ہم نے خانہ (کعبہ) کو مرجع خلائق اور مقام امن قرار دیا اور (حکم دیا کہ) مقام ابراہیم کو مصلیٰ بناؤ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل پر یہ ذمے داری عائد کی کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف، اعتکاف اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔

125۔ خانہ کعبہ کو اللہ نے نزول وحی کا مہبط، تحریک ابراہیمی و انقلاب محمدی کا مرکز، عبادت و خشوع کے لیے قبلۂ عالم، حج کی انجام دہی کے لیے مقدّس اور امن و آشتی کا گہوارہ بنایا۔ ”مقامِ ابراہیم“ وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے آثار موجود ہیں

وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ رَبِّ اجۡعَلۡ ہٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّ ارۡزُقۡ اَہۡلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنۡ اٰمَنَ مِنۡہُمۡ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ قَالَ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاُمَتِّعُہٗ قَلِیۡلًا ثُمَّ اَضۡطَرُّہٗۤ اِلٰی عَذَابِ النَّارِ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿۱۲۶﴾

۱۲۶۔ اور (وہ وقت یاد رکھو) جب ابراہیم نے دعا کی: اے رب! اسے امن کا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور روز قیامت پر ایمان لائیں انہیں ثمرات میں سے رزق عنایت فرما، ارشاد ہوا : جو کفر اختیار کریں گے انہیں بھی کچھ دن(دنیا کی) لذتوں سے بہرہ مند ہونے کی مہلت دوں گا، پھر انہیں عذاب جہنم کی طرف دھکیل دوں گا اور وہ بدترین ٹھکانا ہے۔

وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَ اِسۡمٰعِیۡلُ ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۱۲۷﴾

۱۲۷۔اور ( وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم و اسماعیل اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے،(دعا کر رہے تھے کہ) اے ہمارے رب! ہم سے (یہ عمل) قبول فرما، یقیناً تو خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

127۔ خانہ کعبہ کی تعمیر اور اس کے دو عظیم معماروں کا ذکر ہے۔ چند مربع گز کے ایک گھر کی نہیں، ایک تاریخ کی تعمیر کا تذکرہ ہے، دیوار کی نہیں بلکہ امت کی بنیاد رکھنے کا بیان ہے۔

اس گھر کی دیواروں کو وہی اہمیت حاصل ہے جو اس وقت اور اس کی تاریخ کو حاصل ہے۔ اس گھر کے معمار اول حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ ان کے بعد حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے تعمیر نو کی۔ ہجرت سے دو صدی قبل قصیٰ بن کلاب نے تعمیر نو کی۔ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت سے پانچ سال قبل ایک سیلاب سے کعبہ کی عمارت منہدم ہو گئی تو عرب قبائل نے مل کر تعمیر کی اور حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فیصلے کے مطابق حجر اسود کو تمام قبائل نے ایک چادر میں رکھ کر اٹھایا اور خود آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اس کی جگہ نصب فرمایا۔ عبد اللہ بن زبیر نے جب مکہ پر حکومت قائم کی تو یزید کے لشکر نے کعبہ پر منجنیق سے حملہ کیا اور اسے منہدم کر دیا۔ اس حملے میں غلاف کعبہ بھی جل گیا تھا۔

رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبۡ عَلَیۡنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ﴿۱۲۸﴾

۱۲۸۔اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا اور ہماری ذریت سے اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر اور ہمیں ہماری عبادت کی حقیقت سے آگاہ فرما اور ہماری توبہ قبول فرما، یقینا تو بڑا توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔

128۔ اسلام کے مختلف درجات و مراتب ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اسلام کا کلمہ اپنی زبان پر جاری کرے اور دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے۔ اب اس کا مال و جان محترم ہیں۔ مگر اسلام کے کامل ترین درجے تک رسائی کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے اولوالعزم اور رسول بھی دست دعا بلند کرتے ہیں۔

رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿۱۲۹﴾٪

۱۲۹۔اے ہمارے رب!ان میں ایک رسول انہی میں سے مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات سنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں (ہر قسم کے رذائل سے) پاک کرے،بے شک تو بڑا غالب آنے والا، حکیم ہے۔

129۔ رسولِ کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں: انا دعوۃ ابی ابراھیم ۔ ”میں اپنے پدر بزرگوار ابراہیم علیہ السلام کی دعا (کا نتیجہ) ہوں“۔

وَ مَنۡ یَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّۃِ اِبۡرٰہٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِہَ نَفۡسَہٗ ؕ وَ لَقَدِ اصۡطَفَیۡنٰہُ فِی الدُّنۡیَا ۚ وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۱۳۰﴾

۱۳۰۔ اور ملت ابراہیم سے اب کون انحراف کرے گا سوائے اس شخص کے جس نے اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کیا، ابراہیم کو تو ہم نے دنیا میں برگزیدہ بنایا اور آخرت میں ان کا شمار صالحین میں ہو گا۔

130۔ دین ابراہیمی علیہ السلام سے انحراف کو بیوقوفی قرار دینا، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام عقل و منطق کا دین ہے۔ انسان کے لیے سب سے بڑا خدائی اعزاز، اللہ تعالیٰ کے صالح بندوں کی صف میں شامل ہونا ہے