اِذۡ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗۤ اَسۡلِمۡ ۙ قَالَ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۳۱﴾

۱۳۱۔(ابراہیم کا یہ حال بھی قابل ذکر ہے کہ) جب ان کے رب نے ان سے کہا: (اپنے آپ کو اللہ کے) حوالے کر دو، وہ بولے: میں نے اپنے آپ کو رب العالمین کے حوالے کر دیا۔

وَ وَصّٰی بِہَاۤ اِبۡرٰہٖمُ بَنِیۡہِ وَ یَعۡقُوۡبُ ؕ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰی لَکُمُ الدِّیۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ﴿۱۳۲﴾ؕ

۱۳۲۔ اور ابراہیم نے اپنی اولاد کو اسی ملت پر چلنے کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی (اپنی اولاد کو یہی وصیت کی) کہ اے میرے بیٹو! اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیا ہے، لہٰذا تم تادم مرگ مسلم ہی رہو۔

اَمۡ کُنۡتُمۡ شُہَدَآءَ اِذۡ حَضَرَ یَعۡقُوۡبَ الۡمَوۡتُ ۙ اِذۡ قَالَ لِبَنِیۡہِ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ ؕ قَالُوۡا نَعۡبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚۖ وَّ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ﴿۱۳۳﴾

۱۳۳۔کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا؟ اس وقت انہوں نے اپنے بچوں سے کہا: میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے؟ سب نے کہا: ہم اس معبود کی بندگی کریں گے جو آپ کا اور آپ کے آبا و اجداد ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا معبود ہے جو یکتا معبود اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں۔

133۔ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ : میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو ان کی زندگی کے بعد خطرہ لاحق رہا ہے۔ فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَ اتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ ۔ (19: 59) یعنی پھر ان کے بعد چند ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو کھو دیا اور خواہشات کی پیروی کی۔

تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ وَ لَا تُسۡـَٔلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۳۴﴾

۱۳۴۔ یہ گزشتہ امت کی بات ہے، ان کے اعمال ان کے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، تم لوگوں سے (گزشتہ امتوں کے بارے میں) نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔

134۔ تمہارے اسلاف کتنے ہی مقرب بارگاہ کیوں نہ ہوں، ان پر فخر و مباہات کرنا لاحاصل ہے۔ اگر وہ صالحین میں سے تھے تو یہ فخر صرف انہیں حاصل تھا، جب کہ تمہیں اپنے اعمال کا جوابدہ ہونا پڑے گا۔ لہٰذا یہ نظریہ غیر منطقی ہے کہ بزرگ اسلاف کی عبادتوں کا صلہ تمہیں مل جائے گا۔ تم یہ امید نہ رکھو، تم سے ہرگز یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمہارے اسلاف کیا کرتے تھے۔

وَ قَالُوۡا کُوۡنُوۡا ہُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰی تَہۡتَدُوۡا ؕ قُلۡ بَلۡ مِلَّۃَ اِبۡرٰہٖمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ﴿۱۳۵﴾

۱۳۵۔ وہ لوگ کہتے ہیں: یہودی یا نصرانی بنو تو ہدایت یافتہ ہو جاؤ گے، ان سے کہدیجئے : (نہیں) بلکہ یکسوئی سے ملت ابراہیمی کی پیروی کرو اور ابراہیم مشرکوں میں سے نہ تھے۔

135۔ ملت ابراہیم علیہ السلام ، تعلیم ابراہیم علیہ السلام ، دعائے ابراہیم علیہ السلام اور وصیت ابراہیم علیہ السلام کے بیان کے بعد یہود و نصاریٰ کا یہ دعویٰ کتنا بے اساس اور بے معنی لگتا ہے کہ یہودیت یا نصرانیت ہی ہدایت کے دو راستے ہو سکتے ہیں۔ کتنا فرق ہے، ملت ابراہیم علیہ السلام اور یہودیت و مسیحیت میں اور کس قدر فرق ہے،دین توحید اور دین شرک میں۔ ابراہیم علیہ السلام موحد بلکہ تحریک توحید کے بانی تھے۔

قُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَ مَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰی وَ مَاۤ اُوۡتِیَ النَّبِیُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ ۫ۖ وَ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ﴿۱۳۶﴾

۱۳۶۔ ( مسلمانو !) کہو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر ایمان لائے جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے اور جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد کی طرف نازل کیا گیا اور جو موسیٰ و عیسیٰ کو دیا گیا اور جو انبیاء کو ان کے رب کی طرف سے دیا گیا (ان سب پر ایمان لائے)ہم ان میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے اور ہم صرف اسی کے فرمانبردار ہیں۔

136۔ لَا نُفَرِّقُ : انبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان کے لیے کسی نسلی تعصب کی گنجائش نہیں ہے۔ یہود نسلی تعصب کی بناء پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل کے رسول برحق صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان نہیں لائے، لیکن نسل پرستی پر مبنی ان کے اس عقیدے کے مقابلے میں مسلمان، انبیاء علیہم السلام کے بارے میں نسل، زبان، رنگ وغیرہ کی بنیاد پر کسی تفریق کے قائل نہیں ہیں۔ وہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر محمد مصطفیٰ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک سب کو اللہ کے نمائندے مانتے ہیں۔ اگر ہمارے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نسل اسماعیل علیہ السلام سے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم حضرت اسحاق علیہ السلام کے خلاف ہیں۔ جس طرح یہود نے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی اولاد کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔

فَاِنۡ اٰمَنُوۡا بِمِثۡلِ مَاۤ اٰمَنۡتُمۡ بِہٖ فَقَدِ اہۡتَدَوۡا ۚ وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا ہُمۡ فِیۡ شِقَاقٍ ۚ فَسَیَکۡفِیۡکَہُمُ اللّٰہُ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۱۳۷﴾ؕ

۱۳۷۔اگر یہ لوگ اسی طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ ہدایت پر ہیں اور اگر وہ روگردانی کریں تو وہ صرف مخالفت کے درپے ہیں، ان کے مقابلے میں تمہارے (حمایت کے) لیے اللہ کافی ہو گا اور وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

صِبۡغَۃَ اللّٰہِ ۚ وَ مَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبۡغَۃً ۫ وَّ نَحۡنُ لَہٗ عٰبِدُوۡنَ﴿۱۳۸﴾

۱۳۸۔ خدائی رنگ اختیار کرو، اللہ کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہو سکتا ہے؟ اور ہم صرف اسی کے عبادت گزار ہیں۔

138۔ جس طرح اجسام کے رنگ ہوتے ہیں، جن کی مدد سے وہ جانے اور پہچانے جاتے ہیں، اسی طرح نفوس اور ارواح کے بھی رنگ ہوتے ہیں۔ کفر و شرک سے روح، سیاہ اور مکدر ہو جاتی ہے۔ جب کہ توحید و نبوت پر ایمان لانے سے روح میں زندگی کا حقیقی اور الہٰی رنگ نکھرآتا ہے اور اللہ نے اسے فطرت کے جس صاف و شفاف رنگ میں خلق کیا ہے، وہ اجاگر ہو جاتا ہے۔

اس آیت میں نصاریٰ کے عقیدﮤ تعمید، بپتسما کی طرف اشارہ ہے۔ ان کا یہ رواج تھا کہ جب بھی ان کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا یا کوئی شخص ان کا مذہب اختیار کرتا تو اسے غسل دیتے تھے۔ اسے وہ صِبۡغَۃَ کہتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اس نے زندگی کا نیا رنگ اختیار کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”زندگی کا بہترین رنگ، خدائی فطری رنگ ہے“ اور اس عقیدے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ صرف اسی کی عبات کی جائے: وَّ نَحۡنُ لَہٗ عٰبِدُوۡنَ ۔

قُلۡ اَتُحَآجُّوۡنَنَا فِی اللّٰہِ وَ ہُوَ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ ۚ وَ لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ۚ وَ نَحۡنُ لَہٗ مُخۡلِصُوۡنَ﴿۱۳۹﴾ۙ

۱۳۹۔کہدیجئے: کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے مخاصمت کرتے ہو؟ حالانکہ ہمارا اور تمہارا رب وہی ہے اور ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال اور ہم تو اسی کے لیے مخلص ہیں۔

139۔ یہودی، نصرانی اور مسلمان ایک ہی خدا کو مانتے ہیں۔ لیکن یہود و نصاریٰ نے اللہ کے بارے میں نزاع کیا اور کہا کہ اللہ صرف ہمارا رب ہے اور ہم اس کی برگزیدہ مخلوق ہیں۔ قرآن اس دعوے کو باطل گردانتا ہے اور اس مخاصمت کو بیہودہ قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ خود ساختہ نزاع لاحاصل ہے۔ خدا کسی مخصوص گروہ کا نہیں، بلکہ سب کا رب ہے۔ البتہ ہر گروہ اپنے اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہے۔

اَمۡ تَقُوۡلُوۡنَ اِنَّ اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطَ کَانُوۡا ہُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰی ؕ قُلۡ ءَاَنۡتُمۡ اَعۡلَمُ اَمِ اللّٰہُ ؕ وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنۡدَہٗ مِنَ اللّٰہِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۴۰﴾

۱۴۰۔ کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے؟ پوچھیے: کیا تم بہتر جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جس کے ذمے اللہ کی طرف سے گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے؟ اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر تو نہیں ہے۔

140۔ توریت میں اس بات کی وضاحت موجود تھی کہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کی ذریت کا مذہب کیا تھا؟ اور ان لوگوں سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ وہ آنے والی نسلوں کے لیے اس بات کی شہادت دیں گے، لیکن انہوں نے اس حقیقت کو چھپا کر ایک بہت بڑے ظلم کا ارتکاب کیا۔