آیت 130
 

وَ مَنۡ یَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّۃِ اِبۡرٰہٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِہَ نَفۡسَہٗ ؕ وَ لَقَدِ اصۡطَفَیۡنٰہُ فِی الدُّنۡیَا ۚ وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۱۳۰﴾

۱۳۰۔ اور ملت ابراہیم سے اب کون انحراف کرے گا سوائے اس شخص کے جس نے اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کیا، ابراہیم کو تو ہم نے دنیا میں برگزیدہ بنایا اور آخرت میں ان کا شمار صالحین میں ہو گا۔

تشریح کلمات

سَفِہَ:

جسمانی ہلکا پن۔ ثوب سفیہ، ناقص، ردی اور بیکار کپڑا۔ بعد میں یہ لفظ نقصان عقل کی وجہ سے خفت نفس کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔

اصطفی:

(ص ف و) صفاء ۔ ہر قسم کی آمیزش سے صاف اور پاک ہونا۔ اصطفی برگزیدہ کیا۔ چن لیا۔

تفسیر آیات

وَ مَنۡ یَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّۃِ اِبۡرٰہٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِہَ نَفۡسَہٗ اس آیت میں دو اہم نکات بیان ہوئے ہیں:

۱۔ یہودیوں کی طرف اشارہ ہے کہ یہ ملت ابراہیم سے منحرف ہو چکے ہیں اور ان کا یہ دعویٰ بھی صحیح نہیں ہے کہ صرف یہودی ہی ابراہیم (ع) کے وارث ہیں۔

۲۔ یہودیوں کا یہ زعم باطل ختم کرنا مقصود ہے کہ وہ کوئی برگزیدہ مخلوق ہیں، بلکہ دین ابراہیمی (ع) سے انحراف ان کی کم عقلی کا منہ بولتا ثبوت ہے، کیونکہ یہ لوگ ملت ابراہیم (ع) کی حقیقت جان لینے کے بعد اس سے انحراف کر رہے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ دین ابراہیمی(ع) سے انحراف کو بیوقوفی قرار دینا، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام عقل و منطق کا دین ہے : وَ مَنۡ یَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّۃِ اِبۡرٰہٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِہَ نَفۡسَہٗ ۔۔۔۔

۲۔ انسان کے لیے سب سے بڑا خدائی اعزاز، اللہ تعالیٰ کے صالح بندوں کی صف میں شامل ہونا ہے: وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ۔۔۔۔


آیت 130