وَ قَالُوۡا لَنۡ یَّدۡخُلَ الۡجَنَّۃَ اِلَّا مَنۡ کَانَ ہُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰی ؕ تِلۡکَ اَمَانِیُّہُمۡ ؕ قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۱۱۱﴾

۱۱۱۔ اور وہ کہتے ہیں: جنت میں یہودی یا نصرانی کے علاوہ کوئی ہرگز داخل نہیں ہو سکتا، یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں، آپ کہدیجئے: اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو۔

111۔ یہودیوں کے باطل عقائد میں سے ایک یہ ہے کہ نجات اخروی اور جنت، عمل کا نتیجہ نہیں، بلکہ ان کا اپنا نسلی حق ہے۔ فرمایا : یہ بے بنیاد آرزوئیں ہیں جن کے پیچھے کوئی منطق اور دلیل نہیں ہے۔

یہود و نصاریٰ ایک دوسرے کو اہل جنت نہیں سمجھتے، لیکن مسلمانوں کو اہل جنت نہ سمجھنے میں دونوں متفق ہیں۔ یہ دونوں دِیَانَتَیْن آپس کے فکری و مذہبی اختلاف کے باوجود مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ متحد اور متفق رہی ہیں۔ اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ ۔ ہماری معاصر تاریخ میں بھی اس کے ایسے شواہد بکثرت موجود ہیں کہ جہاں سارے کفار نے اسلام کے مقابلے میں متحدہ روش اختیار کی ہو۔

بَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۱۱۲﴾٪

۱۱۲۔ ہاں! جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا اور وہ نیکی کرنے والا ہے تو اس کے لیے اس کے رب کے پاس اس کا اجر ہے اور انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ کوئی حزن۔

112۔ دخول جنت اور سعادت ابدی کی امید وہ شخص رکھ سکتا ہے، جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا ہو نیز جو خلوص کے ساتھ نیکی کرنے والا، پاک باطن، صالح، مخلص، محسن اور مومن ہو، اس کا دل تسلیم و رضا سے سرشار اور لبریز ہو۔

وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ لَیۡسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیۡءٍ ۪ وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰی لَیۡسَتِ الۡیَہُوۡدُ عَلٰی شَیۡءٍ ۙ وَّ ہُمۡ یَتۡلُوۡنَ الۡکِتٰبَ ؕ کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ مِثۡلَ قَوۡلِہِمۡ ۚ فَاللّٰہُ یَحۡکُمُ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فِیۡمَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۱۱۳﴾

۱۱۳۔ اور یہود کہتے ہیں: نصاریٰ (کا مذہب) کسی بنیاد پر استوار نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں : یہود (کا مذہب) کسی بنیاد پر استوار نہیں، حالانکہ وہ (یہود و نصاریٰ) کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، اس طرح کی بات جاہلوں نے بھی کہی، پس اللہ بروز قیامت ان کے درمیان اس معاملے میں فیصلہ کرے گا جس میں یہ اختلاف کرتے تھے۔

113۔ یہودی کہتے ہیں کہ نصاریٰ کا دین بے اساس ہے، حالانکہ وہ توریت میں حضرت مسیح کی آمد کی خبر پڑھ چکے ہیں۔ حضرت عیسیٰ، دین موسیٰ علیہما السلام کو آگے بڑھانے کے لیے آئے تھے۔ لیکن یہودی حضرت مسیح علیہ السلام کو نہیں مانتے، بلکہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح آنے والے ہیں، جو بنی اسرائیل کو ملک و سلطنت واپس دلائیں گے۔ ادھر نصاریٰ کا بھی یہی نظریہ ہے کہ یہودیوں کا دین بے بنیاد ہے، حالانکہ یہ بھی انجیل کی تلاوت کرتے ہیں۔ کتاب اور علم سے محروم ناخواندہ افراد کا بھی یہی حال ہے۔ آیت میں بت پرست اور جاہل افراد کی طرف اشارہ ہے، جن کا کہنا ہے کہ تمام ادیان بے بنیاد ہیں۔

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنۡ یُّذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ وَ سَعٰی فِیۡ خَرَابِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ مَا کَانَ لَہُمۡ اَنۡ یَّدۡخُلُوۡہَاۤ اِلَّا خَآئِفِیۡنَ ۬ؕ لَہُمۡ فِی الدُّنۡیَا خِزۡیٌ وَّ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ﴿۱۱۴﴾

۱۱۴۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی مساجد میں اس کا نام لینے سے روکے اور ان کی ویرانی کی کوشش کرے؟ ان لوگوں کو مساجد میں داخل ہونے کا حق نہیں مگر خوف کے ساتھ، ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب عظیم ہے۔

114۔ جو عبد اور معبود کے درمیان حائل ہو جائے اور بندگان خدا کو ان کے فطری حق سے محروم کر دے، وہ سب سے بڑا ظالم ہے۔ جبکہ اسلام غیر مسلموں کے گرجا گھروں اور عبادت گاہوں کو حالت جنگ میں بھی منہدم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

وَ لِلّٰہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ ٭ فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡہُ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ﴿۱۱۵﴾

۱۱۵۔ اور مشرق ہو یا مغرب، دونوں اللہ ہی کے ہیں، پس جدھر بھی رخ کرو ادھر اللہ کی ذات ہے، بے شک اللہ (سب چیزوں کا) احاطہ رکھنے والا، بڑا علم والا ہے۔

115۔ حضرت امام موسیٰ بن جعفر علیہما السلام سے روایت کی گئی ہے کہ یہ آیت نماز نافلہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ اگر انسان سفر میں ہو تو جدھر چاہے رخ کرکے نماز پڑھ سکتا ہیـ۔ (فرائض کے لیے تو قبلہ رخ ہونا لازم ہے)۔

وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا ۙ سُبۡحٰنَہٗ ؕ بَلۡ لَّہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ کُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوۡنَ﴿۱۱۶﴾

۱۱۶۔ اور وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے، پاک ہے وہ ذات (ایسی باتوں سے) بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، وہ سب اس کی ملکیت ہے، سب اس کے تابع فرمان ہیں۔

بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ﴿۱۱۷﴾

۱۱۷۔ وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اور جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے: ہو جا، پس وہ ہو جاتا ہے۔

116۔117 آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز اللہ کی تخلیق کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتی، لہٰذا جس وجود کو اللہ کا بیٹا فرض کرو گے وہ اللہ کی مخلوق ہو سکتا ہے بیٹا نہیں۔ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو حکم دیتا ہے ”ہو جا“ سو وہ ہو جاتی ہے۔

یہاں مادہ پرستوں کا ایک فرسودہ اعتراض ہے کہ عدم، وجود کا منبع کیسے ہو سکتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ عدم کسی چیزکو وجود نہیں دے سکتا، نیستی، ہستی کے لیے بنیاد نہیں بن سکتی۔ ”عدم سے“ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عدم وجود کے لیے خام مال کی حیثیت رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مادے کو وجود دینے والا خود مادے سے، بلکہ زمان و مکان سے بھی ماوراء ہے۔ ایک لا محدود ذات مادے کی موجد ہے۔ کیونکہ حد، مادے کا حصہ ہے۔ کُنۡ ارادہ ٔالٰہی کی تعبیر ہے، ورنہ خداوند عالم خلق و ایجاد کے لیے کاف و نون کا محتاج نہیں ہے کہ کن کا مخاطب تلاش کرے۔

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ لَوۡ لَا یُکَلِّمُنَا اللّٰہُ اَوۡ تَاۡتِیۡنَاۤ اٰیَۃٌ ؕ کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّثۡلَ قَوۡلِہِمۡ ؕ تَشَابَہَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ قَدۡ بَیَّنَّا الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ﴿۱۱۸﴾

۱۱۸۔ اور بے علم لوگ کہتے ہیں: اللہ ہم سے ہمکلام کیوں نہیں ہوتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ ان سے پہلے لوگ بھی اسی طرح کی بات کر چکے ہیں، ان کے دل ایک جیسے ہو گئے ہیں، ہم نے تو اہل یقین کے لیے کھول کر نشانیاں بیان کی ہیں۔

118۔ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہر عمل اور ہر حکم معجزہ ہے اور ان کی سیرت و کردار کا ہر حصہ اللہ کی نشانی ہے۔ اس کے علاوہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں بے شمار معجزات صادر ہوتے رہے ہیں، جنہیں دیکھنے کے لیے چشم بینا اور سمجھنے کے لیے عقل و ہوش کی ضرورت ہے۔

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ بِالۡحَقِّ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا ۙ وَّ لَا تُسۡئَلُ عَنۡ اَصۡحٰبِ الۡجَحِیۡمِ﴿۱۱۹﴾

۱۱۹۔ ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے اور آپ سے اہل دوزخ کے بارے میں کوئی پرسش نہیں ہو گی۔

وَ لَنۡ تَرۡضٰی عَنۡکَ الۡیَہُوۡدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمۡ ؕ قُلۡ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ الۡہُدٰی ؕ وَ لَئِنِ اتَّبَعۡتَ اَہۡوَآءَہُمۡ بَعۡدَ الَّذِیۡ جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ ۙ مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ﴿۱۲۰﴾ؔ

۱۲۰۔ اور آپ سے یہود و نصاریٰ اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے جب تک آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ بن جائیں، کہدیجئے: یقینا اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور اس علم کے بعد جو آپ کے پاس آ چکا ہے، اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو آپ کے لیے اللہ کی طرف سے نہ کوئی کارساز ہو گا اور نہ مددگار۔

120۔ وہ صرف اس صورت میں خوش ہوں گے کہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنا مشن ترک کر کے ان کی ملت یعنی خواہش پرستی میں شامل ہو جائیں اور ایک امت مسلمہ اور امت قرآن کو وجود میں لا کر ان کے لیے ایک دائمی مسئلہ پیدا نہ کریں۔

ہماری معاصر تاریخ میں رونما ہونے والے یہودی اور صلیبی جرائم اس آیت کی صداقت پر شاہد ہیں۔