آیت 128
 

رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبۡ عَلَیۡنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ﴿۱۲۸﴾

۱۲۸۔اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا اور ہماری ذریت سے اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر اور ہمیں ہماری عبادت کی حقیقت سے آگاہ فرما اور ہماری توبہ قبول فرما، یقینا تو بڑا توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔

تشریح کلمات

مُّسۡلِم:

( س ل م ) اسلام قبول کرنے والا۔ سِلْمٌ سے مراد صلح ہے، تاکہ دو فریق ایک دوسرے کے شر سے سالم رہیں۔ سلامتی۔ تسلیم و رضا۔ ہر نقص و عیب اور رذائل سے سالم ہونا۔ ارتقا و عروج کا ذریعہ۔

اُمَّۃً:

جس جماعت کے افراد کے درمیان دینی رشتہ، جغرافیائی ربط یا عصری وحدت ہو۔ لہٰذا ایک مذہب سے منسلک افراد کو امت کہتے ہیں۔ جیسے امت مسلمہ، اسلامی امت وغیرہ۔ علاقائی بنیادوں پر بھی امت کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً مشرقی یا مغربی امت۔ اسی طرح ایک زمانے میں موجود ہونے کے لحاظ سے بھی امت کہا جاتا ہے، جیسے قرون وسطیٰ کی امت، آخری زمانے کی امت وغیرہ۔

مناسک:

(ن س ک) نسک کی جمع۔ نسک سے مراد پاک کرنا اور دھونا ہے : نسک الثوب کپڑے کو دھویا اور پاک کیا گیا۔ اسی بنا پر یہ لفظ قربانی کے لیے استعمال ہوا، کیونکہ قربانی انسان کو ہر قسم کی آلودگی سے پاک کرتی ہے۔ منسک قربانی کا طریقہ، قربان گاہ۔ مناسک، حج کے اعمال و مراسم۔

تفسیر آیات

امت مسلمہ: رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ ۔۔۔ اسلام کی تعریف بطور دین یہ ہے :

ھُوَ الْاِنْقِیَادُ لِاَمْرِ اللّٰہِ تَعَالَی بِالْخُضُوْعِ وَ الْاِقْرَارِ بِجِمِیْعِ مَا اَوْجَبَ عَلَیْہِ۔ {التبیان ۱ :۴۶۴}

اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے خضوع کے ساتھ سرتسلیم خم کر لینا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے واجب کردہ تمام امور کا اقرار کرنا۔

اس ضابطہ حیات میں ہر قسم کی سلامتی بھی ہے، ہر نقص و عیب سے نجات بھی اور انسانی ارتقا و عروج بھی۔

اسلام کے مختلف درجات و مراتب ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اسلام کا کلمہ اپنی زبان پر جاری کرے اور دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے۔ اب اس کا مال و جان محترم ہیں۔ مگر اسلام کے کامل ترین درجے تک رسائی کے لیے حضرت ابراہیم (ع) جیسے اولوالعزم رسول بھی دست دعا بلند کرتے ہیں۔

اسلام کا یہ اعلی ترین درجہ فَنَا فِیۡ اللّٰہ کا مقام ہے، جس پر فائز ہونے کے بعد انسان اپنی ذات اور اپنی ہر چیز کو اللہ کی بارگاہ میں پیش کر دیتا ہے۔ یہ مقام ’’تسلیم و رضا ‘‘ ہے اور یہی’’مقام خلیل (ع)‘‘ ہے۔

وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ آل ابراہیم (ع) میں سے جو جماعت’’ تسلیم و رضا ‘‘کے اس اعلیٰ ترین مقام پرفائز ہو گی، امامت کامنصب بھی اسی کے لیے مخصوص ہو گا۔ توجہ رہے کہ یہ دعا حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام مل کر مانگ رہے ہیں: ’’ اے ہمارے پرور دگار !ہم دونوں کی آل سے ایک امت مسلمہ قرار دے ‘‘۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عہد الٰہی حضرت اسماعیل (ع)کی نسل سے مخصوص تھا۔ حضرت اسحاق (ع)کی نسل کا اس عہد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا ہمیں اپنی عبادت کا طور طریقہ دکھا۔ اس سے تعلیم عبادت بھی مراد لی جا سکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ عبادت کی روح اور حقیقت سے آگاہی حاصل کرنے کی دعا ہو۔ یعنی ہمیں بتا کہ تیری بارگاہ میں قربانی پیش کرنے اور فَنَا فِی اللّٰہ کا مقام حاصل کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ آیت کے اس حصے سے عشق ابراہیمی کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ ایمان وتسلیم، توفیق خداوندی کے بغیر ممکن نہیں: رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ ۔۔۔۔

۲۔ اپنے اور اپنی اولاد کے لیے ایمانی اورمعنوی کمالات کی دعاکرنا سنت ابراہیمی ہے: وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ

۳۔ صرف خدا کے آگے سر تسلیم خم کرنا چاہیے: مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ۔۔۔۔ مُّسۡلِمَۃً لَّکَ

۴۔ پہلے روح تسلیم پھر عبادت۔

۵۔ ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی اجتماعی دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ نسل اسماعیل سے تعلق رکھتی ہے: مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ ۔

تحقیق مزید: بحار الانوار ۲۴ : ۱۵۴


آیت 128