وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَ اِسۡمٰعِیۡلُ ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۱۲۷﴾

۱۲۷۔اور ( وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم و اسماعیل اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے،(دعا کر رہے تھے کہ) اے ہمارے رب! ہم سے (یہ عمل) قبول فرما، یقیناً تو خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

127۔ خانہ کعبہ کی تعمیر اور اس کے دو عظیم معماروں کا ذکر ہے۔ چند مربع گز کے ایک گھر کی نہیں، ایک تاریخ کی تعمیر کا تذکرہ ہے، دیوار کی نہیں بلکہ امت کی بنیاد رکھنے کا بیان ہے۔

اس گھر کی دیواروں کو وہی اہمیت حاصل ہے جو اس وقت اور اس کی تاریخ کو حاصل ہے۔ اس گھر کے معمار اول حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ ان کے بعد حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے تعمیر نو کی۔ ہجرت سے دو صدی قبل قصیٰ بن کلاب نے تعمیر نو کی۔ حضور ﷺ کی بعثت سے پانچ سال قبل ایک سیلاب سے کعبہ کی عمارت منہدم ہو گئی تو عرب قبائل نے مل کر تعمیر کی اور حضور ﷺ کے فیصلے کے مطابق حجر اسود کو تمام قبائل نے ایک چادر میں رکھ کر اٹھایا اور خود آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اس کی جگہ نصب فرمایا۔ عبد اللہ بن زبیر نے جب مکہ پر حکومت قائم کی تو یزید کے لشکر نے کعبہ پر منجنیق سے حملہ کیا اور اسے منہدم کر دیا۔ اس حملے میں غلاف کعبہ بھی جل گیا تھا۔