آیت 124
 

وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ؕ قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ قَالَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۲۴﴾

۱۲۴۔ اور ( وہ وقت یاد رکھو)جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا اور انہوں نے انہیں پورا کر دکھایا، ارشاد ہوا : میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا: اور میری اولاد سے بھی؟ ارشاد ہوا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔

تشریح کلمات

اِبۡرٰہٖم:

حضرت ابراہیم(ع) ابو الانبیاء ہیں۔ وہ دنیا کے تین بڑے ادیان کے پیشواؤں حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ علیہما السلام اور حضرت محمد (ص) کے جد اعلیٰ ہیں۔ آپ (ع) قدیم کلدانی سلطنت بابل اور موجودہ عراق کے ایک شہر اُر (UR) میں پیدا ہوئے۔ عام خیال یہ ہے کہ آپ حبرون میں دفن ہوئے، جسے اب الخلیل کہتے ہیں۔

آپ (ع) نے اپنے فرزندوں کے ذریعے دنیامیں دعوتِ توحید کے دو مراکز قائم کیے۔ ایک حرم مکہ (حجاز) میں اور دوسرا حرم اقصٰی (فلسطین) میں۔ حجاز میں حضرت اسماعیل علیہ السلام اور فلسطین میں حضرت اسحاق علیہ السلام کو متعین فرمایا۔ توریت میں آپؑ کا نام ابرام اور ابراھم دونوں طرح مذکور ہے۔ اہل لغت کے نزدیک ابراہیم، اب اور راہم سے مرکب ہے۔ اَب یعنی باپ یا رئیس اور راہم یعنی بلند پایہ۔ بنابرین ابراہم یعنی عظیم باپ اس نام کے متعدد تلفظ ہیں: ابرام، ابراھم، ابراھام، ابراہیم۔

اِبْتَلَاء:

( ب ل و ) بلاء لاغر اور کہنہ۔ آزمائش اور امتحان کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ جسے آزمائش میں ڈالا جاتا ہے، وہ کمزور اور لاغر ہو جاتا ہے۔

کَلِمٰت:

( ک ل م ) کلمہ کی جمع ہے۔ یعنی وہ لفظ جو معنی پر دلالت کرے۔ اصل میں کلم کا مفہوم زخم لگانا ہے۔ لفظ چونکہ معنی کے نشانے پر لگتا ہے، اس لیے اسے کلمہ کہا جاتا ہے۔

اِمَام:

( ا م م ) جس کی پیروی کی جائے۔ چاہے وہ شخص ہو یا کتاب اور شخص چاہے حق پر ہو یا باطل پر:

یَوۡمَ نَدۡعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِہِمۡ {۱۷ اسراء : ۷۱}

قیامت کے دن ہم ہر گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔

یاد رہے کہ قیامت کے دن ہر ایک اپنے اپنے پیشوا کے ساتھ محشور ہو گا خواہ وہ پیشوا برحق ہو یا نہ ہو۔

ذُرِّیَّۃ:

اولاد۔

تفسیر آیات

وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ ۔۔۔ الخ: دعوت خدا کے بانی، انسانی ارتقائی سفر کے میر کارواں، دعوت توحید کے مؤسس، تحریک جہاد کے اولین قائد، راہ خدا کے پہلے مجاہد، بیت اللہ کے معمار، اللہ کی راہ میں نکلنے والے پہلے مہاجر، تاریخ انسانیت کے عظیم بت شکن، ابو الانبیاء، خلیل خدا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ ہے۔ ذکر خلیل کے لیے قرآن نے جس مقام کا انتخاب کیا ہے، وہ نظم و ترتیب کے لحاظ سے ایک معجزہ ہے۔

اہل کتاب اپنے آپ کو حضرت اسحاق (ع) کے ذریعے حضرت ابراہیم (ع) سے مربوط کرتے ہیں۔ ادھر بنی اسرائیل سمجھتے ہیں کہ وہی اللہ کی برگزیدہ قوم اور روئے زمین پر الہٰی منصب خلافت کے اہل ہیں۔ یہ لوگ نسل اسماعیل کو اس منصب کا اہل نہیں سمجھتے۔ چنانچہ اسماعیلی اور اسرائیلی نسلی رقابت کوئی تعجب کی بات نہیں۔

قرآن نے بنی اسرائیل کی طویل تاریخ بیان فرماتے ہوئے اس بات کی طرف بار بار اشارہ کیا ہے کہ یہ قوم کس قدر بدعہد، بدکردار اور ناشکری ہے۔ قرآن کے طرز بیان اور سیاق عبارت سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قوم اس الہٰی منصب کی اہل نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے جن بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا، اب یہ نعمتیں اس سے چھن رہی ہیں۔ یہاں تک کہ منصب خلافت بھی اب ان سے لے کر کسی اہل اور امین کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی حضرت خلیل (ع) کی امامت، ان کی اولاد میں اس منصب کے تسلسل، ظالموں کو اس منصب سے دور رکھنے بیت اللہ کی تعمیر، اس خانۂ خدا کو ہر قسم کی ناپاکیوں سے پاک رکھنے کی ذمہ داری، تبدیلی قبلہ اور نسل اسماعیل ؑکے لیے منصب رسالت کی دعا کا ذکر آتا ہے اور یہ بتا دیا جاتا ہے کہ دنیاوی امامت کے لیے نسل اسرائیل کی جگہ اب نسل اسماعیل کو منتخب کر لیا گیا ہے۔

فلسفۂ امتحان: وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ ۔۔ خداوند عالم کسی بندے کو اس لیے امتحان میں نہیں ڈالتا کہ اللہ کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ بندہ کتنی صلاحیت رکھتا ہے اور کیا کچھ کر سکتا ہے۔ کیونکہ خدا تو پہلے ہی سے ہر چیز کا علم رکھتا ہے، بلکہ امتحان و آزمائش کا مقصد بندے کو میدان عمل فراہم کرنا ہے تاکہ وہ حسن کارکردگی کی بنا پر اللہ کے فضل و کرم کا مستحق ٹھہرے یا بد کرداری کی وجہ سے غضب الہٰی کا سزاوار قرار پائے۔ یہاں بھی اللہ کی مرضی یہ تھی کہ ابراہیم (ع) کا امتحان لیا جائے تاکہ امتحان میں کامیابی کے نتیجے میں استحقاق کی بنیاد پر انہیں برگزیدہ فرمائے اور منصب امامت و رسالت پر فائز کرے۔ یہ درست ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے، مگر یاد رہے کہ اللہ کی مشیت اور چاہت ایک حکیمانہ بنیاد پرقائم ہے، جس کے مطابق وہ صرف اہل اور مستحق افراد کو عزت دیتا ہے اور نا اہل و غیر مستحق افراد کو عزت و وقار سے محروم کر دیتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

فَاِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَقْصِمْ جَبَّارِیْ دَھْرٍ قَطُّ اِلَّا بَعْدَ تَمْھِیْلٍ وَ رَخَائٍ وَ لَمْ یَجْبُرْ عَظْمَ اَحَدٍ مِنَ الْاُمَمِ اِلَّا بَعْدَ اَزْلٍ وَ بَلَائٍ۔ {نہج البلاغۃ خطبہ :۸۶ ص۲۵۰}

اللہ تعالیٰ نے زمانے کے کسی سرکش کی گردن نہیں توڑی، جب تک اسے مہلت نہیں دی اور کسی امت کی (شکستہ) ہڈی نہیں جوڑی جب تک اسے سختی اور آزمائش میں نہیں ڈالا۔

خود قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:

وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ فِتۡنَۃً ؕ وَ اِلَیۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ {۲۱ انبیاء : ۳۵}

اور ہم برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہاری آزمائش کرتے ہیں۔

بلکہ امتحان سے توا نسان کی شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے اور اس کی عظمت کے خد و خال روشن ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے انبیاء اور علماء کی آزمائش زیادہ سخت ہوتی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق آزمائش جتنی کڑی ہو گی اجر و ثواب اتناہی زیادہ ہو گا:

کُلَّمَا کَانَتِ الْبَلْوَیٰ وَ الْاِخْتِبَارُ اَعْظَمُ کَانَتِ الْمَثُوْبَۃُ وَ الْجَزَائُ اَجْزَلُ ۔ {نہج البلاغۃ خطبہ : ۱۹۰ ص ۵۲۳}

جتنا کڑی اور سخت آزمائش ہو گی، اتنی ہی جزا بڑی ہو گی۔

انبیاء اور آئمہ اطہار علیہم السلام کی آزمائش ان کے عظیم مقام اور بلند رتبے کے لحاظ سے زیادہ کڑی ہوتی ہے۔

انبیاء (ع) کی آزمائش کے سلسلے میں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام سے روایت ہے:

وَ لَوْ اَرَادَ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ لِاَنْبِیَائِہٖ حَیْثُ بَعَثَہُمْ اَنْ یَفْتَحَ لَہُمْ کُنُوْزَ الذَہَبَانِ وَ مَعَادِنَ الْعِقْیَان وَ مَغَارِسَ الْجِنَانِ وَ اَنْ یَحْشُرَ مَعَھُمْ طُیُورَ السَّمَائِ وَ وُحُوْشَ الْاَرَضِیْنَ لَفَعَلَ وَ لَو فَعَلَ لَسَقَطَ الْبَلَائُ وَ بَطَلَ الْجَزَائُ وَ اِضْمَحَلَّتِ الْاَنْبَائُ ۔ {نہج البلاغۃ خطبہ : ۱۹۰ ص ۵۲۲}

انبیاء (ع) کو مبعوث کرتے وقت اگر خداوند عالم یہ چاہتا کہ ان کے لیے سونے کے خزانوں اور خالص طلا کی کانوں کے منہ کھول دے اور باغوں کے کشت زار انہیں مہیا کرے نیز فضا کے پرندوں اور صحرائی جانوروں کو ان کے ہمراہ کر دے، تو کر سکتا تھا۔ لیکن اگر ایسا کرتا تو پھر آزمائش ختم، جزا و سزا بیکار اور آسمانی خبریں اکارت ہو جاتیں۔

لہٰذا اللہ تعالیٰ اپنا بار امانت ایسے لوگوں کے کندھوں پر ڈالتا ہے جنہیں وہ کڑی سے کڑی آزمائش سے گزار چکا ہوتا ہے۔ امانت و رسالت کا بارگراں تواپنی جگہ، ان ہستیوں سے وابستگی کے لیے بھی آزمائش کا کٹھن راستہ عبور کرنا پڑتا ہے۔ اہل بیت اطہار علیہم السلام سے وابستہ رہنا انتہائی مشکل امر ہے۔

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے روایت ہے:

اِنَّ اَمْرَنَا صَعْبٌ مُسْتَصْعَبٌ لَا یَحْمِلُہٗ اِلَّا عَبْدٌ اِمْتَحَنَ اللّٰہُ قَلْبَہٗ لِلْاِیْمَانِ ۔ {۴ نساء: ۱۷۱}

ہمارا معاملہ مشکل اور دشوار ہے۔ جس کا متحمل وہی بندہ مؤمن ہو گا جس کے دل کو اللہ نے ایمان کے لیے آزما لیا ہو۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ امتحان و آزمائش ارتقا و تکامل کا ذریعہ ہے، جس سے گزرے بغیر کوئی شخص خدا کی جانب سے کسی منصب پر فائز نہیں ہو سکتا۔

بِکَلِمٰتٍ: کَلِمَات سے کیا مراد ہے ؟ عربی زبان میں کلمہ وہ لفظ ہے جو کسی معنی پر دلالت کرے اور وہ معنی بھی کلمہ کہلاتا ہے جو کسی اور معنی پر دلالت کرے۔ لہٰذا کلمہ کا بنیادی مفہوم ’’دلالت ‘‘ ہے:

۱۔ یہ دلالت لفظ کے ذریعے ہو تو اس لفظ کو کلمہ کہتے ہیں۔

۲۔ جو ذات اللہ کے وجود پر دلالت کرے وہ کلمہ کہلائے گی۔ جیسے حضرت عیسی علیہ السلام بن باپ پیدا ہونے کی وجہ سے وجود خدا پر ایک دلیل ہیں۔ اس لیے انہیں کلمہ کہا گیا ہے:

اِنَّمَا الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ ۚ اَلۡقٰہَاۤ اِلٰی مَرۡیَمَ ۔۔۔۔ {۴ نساء: ۱۷۱}

بیشک مسیح عیسیٰ بن مریم تو اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جو اللہ نے مریم تک پہنچا دیا۔۔۔۔

حضرت رسول خدا (ص) کے بارے میں ارشاد ہے:

قَدۡ اَنۡزَلَ اللّٰہُ اِلَیۡکُمۡ ذِکۡرًا رَّسُوۡلًا ۔۔۔ {۶۵ طلاق: ۱۰۔ ۱۱}

بے شک اللہ نے تمہاری طرف ایک ذکر نازل کیا ہے، ایک ایسا رسول۔۔۔۔۔

۳۔ دلیل و برہان کو بھی کلمہ کہتے ہیں اس لیے کہ یہ حق پر دلالت کرتی ہے۔ ارشاد قدرت ہے:

وَ یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّحِقَّ الۡحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَ یَقۡطَعَ دَابِرَ الۡکٰفِرِیۡنَ {۸ انفال : ۷}

جب کہ اللہ یہ چاہتا تھا کہ حق کو اپنے فرامین کے ذریعے ثبات بخشے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔

وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الۡعُلۡیَا ۔۔۔ {۹ توبہ: ۴۰}

اور اللہ کا کلمہ تو سب سے بالاتر ہے۔

رہا یہ سوال کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کن کلمات سے آزمایا گیا اور انکلمات کی نوعیت کیا تھی؟

قرآن کریم کی طرف رجوع کریں تو ایک مقام ملتا ہے جس سے امتحان کی نوعیت کا علم ہو جاتا ہے اور چونکہ امتحان کَلِمَات کے ذریعے ہوتا تھا، اسی لیے کلمات کی نوعیت کا اندازہ بھی ہو جاتا ہے۔ وہ مقام ذبح عظیم کا ہے، جس کے بارے میں قرآن ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡبَلٰٓـؤُا الۡمُبِیۡنُ {۳۷ صافات :۱۰۶}

یقینا یہ ایک نمایاں امتحان تھا۔

الۡبَلٰٓـؤُا الۡمُبِیۡنُ سے ابتلائے ابراہیم کی نوعیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ ’’بیٹے کی قربانی‘‘ ایک ایسا کلمہ ہے جو کَلِمَہ کُنْ کی طرح فوری طور پر واجب التعمیل ہے۔پس حضرت ابراہیم (ع) کو ایسے امور کے ساتھ آزمایا گیا جن کی فوری تعمیل ضروری تھی۔ اسی لیے انہیں کلمہ کہا گیا ہے۔ چونکہ کلمہ کُنۡ فَیَکُوۡنُ سے دائمی تکوینی وجود لازم ہوتا ہے، اس لیے اس کی تعمیل کو قیامت تک شعائر اللہ میں داخل کر دیا گیا۔ چنانچہ اس واقعے کی یاد مناتے وقت مکہ میں جو قربانی دی جاتی ہے وہ بھی شعائر اللہ میں داخل ہے:

وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ ۔۔۔۔ {۲۲ حج : ۳۶}

اور قربانی کے اونٹ میں جسے ہم نے تم لوگوں کے لیے شعائر اللہ میں سے قرار دیا ہے۔

حضرت ابراہیم(ع) کو ان امتحانات میں مختلف مراحل سے گزارا گیا۔ ہر مرحلے میں وہ ایک دوسرے عالم میں داخل ہوتے تھے۔ ان کے لیے نئی راہیں کھلتی تھیں اوراللہ کا مزید قرب حاصل ہوتا تھا۔ چنانچہ بت شکنی اور اس کے مقدمے میں پیشی، آتش نمرود میں پھینکا جانا، سرسبز و شاداب وطن چھوڑ کر مکہ کی بے آب و گیاہ سر زمین کی طرف ہجرت، اپنے بیٹے کے گلے پر چھری چلانا اور دیگر مراحل سے گزر کر حضرت ابراہیم(ع) ملکوت الٰہی تک جا پہنچے:

وَ کَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لِیَکُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِنِیۡنَ {۶ انعام : ۷۵}

اور اس طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی حکومت دکھاتے تھے تاکہ وہ اہل یقین میں سے ہو جائیں۔

عالم ملکوت اس کائنات کا باطنی چہرہ ہے اور اس عالم میں حضرت ابراہیم (ع)کے وارد ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فَاَتَـمَّہُنَّ یعنی ابراہیم(ع) نے ان کلمات کو پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا۔ اَتَمَّ یعنی کمال تک پہنچانا۔ ارشاد ہے:

وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ {۹ توبہ: ۳۲}

مگر اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے کے علاوہ کوئی بات نہیں مانتا اگرچہ کافروں کو ناگوار گزرے۔

بعض مفسرین کے مطابق اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ ان کلمات کو اللہ نے پایۂ تکمیل تک پہنچایا، نہ کہ ابراہیم(ع) نے۔ لیکن سیاق عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ کلمات کا امتحان ابراہیم (ع) سے لیا گیا تو انہیں مکمل کرنا ابراہیم (ع) ہی کی ذمہ داری تھی۔ چنانچہ اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے بعد انہیں امامت کا مقام حاصل ہوا۔ اگر اللہ نے ان کلمات کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہوتا تو حضرت ابراہیم (ع) کو مقام امامت کے حصول کی خصوصیت حاصل نہ ہوتی۔

قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا اِمَام یعنی وہ شخصیت جس کی لوگ اقتدا کریں۔ چونکہ لوگ رسول کی بھی اقتدا کرتے ہیں اور یہ واجب بھی ہے، اس لیے کچھ لوگوں کو شبہ ہوا کہ اِمَام سے مراد رسول ہی ہیں۔ لیکن یہ نظریہ چند وجوہات کی بنا پر درست نہیں ہے :

۱۔ حضرت ابراہیم(ع) کو متعدد کلمات سے آزمانے کے بعد درجہ امامت پر فائز کیا گیا جن میں سر فہرست حضرت اسماعیل(ع) کی قربانی تھی۔ اسماعیل(ع) حضرت ابراہیم (ع) کے بڑھاپے میں پیدا ہوئے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم (ع)کا یہ قول قرآن مجید میں بیان ہوا ہے:

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ وَہَبَ لِیۡ عَلَی الۡکِبَرِ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ ۔۔۔ {۱۴ ابراہیم: ۳۹}

ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے عالم پیری میں مجھے اسماعیل اور اسحاق عطا کیے۔

توریت میں ہے کہ حضرت اسماعیل(ع) کی ولادت کے وقت حضرت ابراہیم (ع) کی عمر ۸۴ سال تھی۔ {پیدائش ۱۶ : ۱۶} نیزتوریت میں ہی مرقوم ہے کہ حضرت اسحاق کی ولادت کے وقت حضرت ابراہیم علیہما السلام کی عمر ۱۰۰ سال تھی۔ بنا بریں حضرت ابراہیم(ع) مقام امامت پر فائز ہونے سے پہلے ہی رسول تھے۔ کیونکہ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ سے ثابت ہے کہ امامت پر فائز ہوتے وقت آپ (ع) کی اولاد موجود تھی۔

۲۔ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ ۔۔۔ کا خطاب بذات خود درجہ رسالت کی تصدیق کرتا ہے،کیونکہ یہ وحی ہے اور وحی کا نزول نبوت کا ثبوت ہوتا ہے۔

نبوت: نبی وہ ہے جو عالم خواب میں آواز سنتا ہے۔ جیسے حضرت ابراہیم (ع) کا خواب یا رسالت مآب (ص) پر وحی نازل ہونے سے قبل جو کچھ خواب میں سنائی دیتا تھا۔ {اصول الکافی ۱: ۱۷۶ باب الفرق بین الرسول و النبی }

رسالت: رسول وہ ہیں جن پر جبرئیل نازل ہوتا ہے اور انہیں فرشتۂ وحی نظر آتا ہے۔

امامت: ۱۔ امام تبلیغ و ارشاد اور تربیت امت کے منصب کے ساتھ ولایت و حاکمیت اورمؤمنین کے نفوس پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے۔ چنانچہ رسالت مآب کے حق میں ارشاد ہوا:

اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ ۔۔۔۔ {۳۳ احزاب : ۶}

نبی مؤمنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے۔

یعنی رسول خدا (ص) کو مؤمنین کے نفوس پر جو ولایت و حاکمیت اور حق تصرف حاصل ہے، وہ خود مؤمنین کو اپنے نفوس پر حاصل نہیں ہے۔ چنانچہ جب ولایت و حاکمیت کے لحاظ سے نفاذ امر خدا کا مرحلہ آتا ہے تو امامت کی ذمہ داری شروع ہو جاتی ہے۔

۲۔ امام مقام امر کے تحت ہدایت کرتا ہے۔ وہ رہبر ہونے کے ناطے امت کی ہدایت کرتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

وَ جَعَلۡنَا مِنۡہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا لَمَّا صَبَرُوۡا ۟ؕ وَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یُوۡقِنُوۡنَ {۳۲ سجدہ: ۲۴}

اور جب انہوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیات پر یقین رکھے ہوئے تھے تو ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو امام بنایا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں۔

عالم امر و ملکوت اس کائنات کی حقیقی و باطنی صورت ہے۔ لہٰذا امام کی ہدایت صرف تبلیغ و ارشاد سے ہی نہیں بلکہ نفاذ سے بھی مربوط ہے۔ امرالٰہی کے عملی نفاذ کے موقع پر جب انہیں رہبری کا مقام حاصل ہو گا تو امام کہلائیں گے۔

۳۔ امام دنیا و آخرت میں یکساں رہنما ہوتے ہیں۔ وہ کونین اور دارین کے پیشوا اور ان دونوں جہانوں میں مؤمنین کو خدا کی طرف لے جاتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:

یَوۡمَ نَدۡعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِہِمۡ ۔۔۔ {۱۷ بنی اسرائیل: ۷۱}

قیامت کے دن ہم ہر گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔

۴۔ امام سے کوئی زمانہ خالی نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ مندرجہ بالا آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ قیامت کے دن تمام انسانوں کو ان کے امام کے ساتھ بلایا جائے گا۔ اس کا لازمہ یہ ہے کہ تمام زمانوں میں امام موجود ہوں۔

۵۔امام معصوم عن الخطاء ہوتا ہے کیونکہ اگر (بفرض محال) امام سے معصیت صادر ہو جائے تو رہبر و رہنما اور مقتدیٰ ہونے کی بنا پر اس کی اقتدا ہم پر واجب ہو گی جب کہ دوسری طرف سے معصیت کا ارتکاب حرام ہو گا اور چونکہ ایک ہی وقت میں ایک چیز میں واجب اور حرام کا اجتماع محال ہے، لہٰذا امام کا معصوم ہونا ضروری ہے۔

بہت سے انبیاء صرف نبوت کے مقام پر فائز رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ کوئی نبی نبوت و رسالت دونوں منصبوں پر فائز ہو۔ اسی طرح اولو العزم شخصیات تینوں مناصب (نبوت، رسالت اور امامت ) پر فائز ہوتی ہیں، جیسے حضرت نوح،حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی صلوات اللہ علیہم۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک برگزیدہ ہستی نبوت و رسالت کے مقام پر فائز نہ ہو بلکہ صرف امامت کے منصب پر فائز ہو۔ البتہ یہ صورت اس وقت قابل تصور ہو گی جب وحی احکام اور رسالت آسمانی، پایۂ تکمیل کو پہنچ چکی ہوں اور مزید وحی اور جدید شریعت کی ضرورت باقی نہ رہے۔ جیسے حضرت محمد مصطفی صلوات اللہ علیہ و آلہ کے ذریعے آسمانی پیام اور الہی دستور حد کمال کو پہنچ چکا تو ارشاد ہوا: اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ ۔۔۔ اب نبوت کا سلسلہ ختم ہوا اور اس آسمانی رسالت اور الٰہی دستور کے نفاذ کے لیے امامت عظمیٰ اور ولایت کبریٰ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

حضرت ابراہیم (ع) کو مقام امامت کی اہمیت اور ہر زمانے میں اس کی ضرورت کا علم تھا۔ وہ جانتے تھے کہ سلسلۂ امامت لوگوں کی ہدایت کے لیے قیامت تک جاری رہے گا۔ چنانچہ خود قرآن مجید حضرت ابراہیم (ع) کے علم و فہم اور کمال ادراک کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ رُشۡدَہٗ مِنۡ قَبۡلُ وَ کُنَّا بِہٖ عٰلِمِیۡنَ {۲۱ انبیاء: ۵۱}

اور بتحقیق ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے عقل کامل عطا کی تھی اور ہم اس کے حال سے باخبر تھے۔

اسی رشد و کمال کی بنا پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ یہ عظیم الہی منصب صرف ان کی ذات تک محدود نہ رہے بلکہ ان کی اولاد میں نسل در نسل جاری و ساری رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کی یہ خواہش پوری کی اور فرمایا:

فَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ اٰتَیۡنٰہُمۡ مُّلۡکًا عَظِیۡمًا {۴ نساء : ۵۴}

ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت عطا کی اور ان کو عظیم سلطنت عنایت کی۔

حضرت ابراہیم(ع) نے ساری اولاد کے لیے سوال نہیں فرمایا بلکہ وَمِنْ ذُرِّيَّـتِی کے ذریعے بعض کے لیے اس منصب کی درخواست کی۔ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ میری تمام اولاد اس منصب کی اہل نہیں ہو گی۔

چنانچہ قرآن مجید بھی اس بات کی وضاحت فرماتا ہے:

وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِہِمَا مُحۡسِنٌ وَّ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ مُبِیۡنٌ {۳۷ صافات : ۱۱۳}

ان دونوں (ابراہیم و اسحاق علیہما السلام) کی اولاد میں نیکی کرنے والا بھی ہے اور اپنے نفس پر صریح ظلم کرنے والا بھی ہے۔

حضرت ابراہیم (ع) کی استدعا کے جواب میں خالق نے ارشاد فرمایا: لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ میرا یہ عہد ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔ چونکہ یہ عہدہ اسلامی احکام کے نفاذ سے مربوط ہے، لہٰذا جو اپنے نفس پر کوئی حکم نافذ نہ کر سکے وہ دوسروں پر اس کے نفاذکی ضمانت کیسے فراہم کر سکتا ہے؟ مرحوم علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں کہ ان کے ایک استاد محترمؒ سے سوال کیا گیا کہ یہ آیت عصمت امام پر کیسے دلالت کرتی ہے؟ تو جواب میں فرمایا :

عقلی تقسیم کے مطابق لوگوں کی چار قسمیں ہیں:

۱۔ جو اپنی ساری زندگی ظالم رہے ہوں۔

۲۔ جو زندگی میں کبھی ظالم نہ رہے ہوں۔

۳۔ جو ابتدائے عمر میں ظالم رہے ہوں۔

۴۔ آخر عمر میں ظالم ہوں۔

حضرت ابراہیم(ع) کی شان اس سے بالاتر ہے کہ وہ پہلی اور آخری قسم کے لوگوں کے لیے امامت کی خواہش کرتے۔ باقی دو قسمیں رہ جاتی ہیں۔ جن میں سے ایک کے لیے اللہ تعالیٰ نے امامت کی نفی فرما دی، لہٰذا وہی لوگ منصب امامت کے اہل رہ گئے جو پوری عمر میں کبھی ظالم نہ رہے ہوں۔ {المیزان ۱ : ۲۷۴}

پس نسل اسماعیل(ع) کے وہ لوگ اس منصب کے اہل نہیں جو بت پرستی جیسے ظلم کے مرتکب ہوئے ہوں۔

ظلم کیا ہے؟: کسی چیز کو اس کے مناسب مقام سے ہٹانا ظلم ہے۔ ظَلَمَتِ السَّقَّا کا محاورہ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب مشکیزے میں دودھ ڈالنے کے بعد اس کے جمنے اور دہی بننے سے پہلے ہی اسے پی لیا جائے۔ اس لیے حق سے تجاوز کرنا بھی ظلم کہلاتا ہے۔ اس کے مختلف درجے ہیں۔ سب سے بڑا ظلم، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ہے:

اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ {۳۱ لقمان : ۱۳}

یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔

حق سے تجاوزاگر قلیل ہو تو اسے معصیت کہتے ہیں۔ ہر قسم کی معصیت ظلم کے اطلاق میں شامل ہے۔ آیہ شریفہ میں مطلق ظلم کا ذکر ہے۔ اس لیے امام کا ہر قسم کے ظلم سے پاک ہونا ضروری ہے:

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡاَمۡنُ وَ ہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ ۔ {۶ انعام : ۸۲}

جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے ملوث نہیں کیا یہی لوگ امن میں ہیں اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔

کافی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ اِتَّخَذَ اِبْرَاہِیْمَ عَبْداً قَبْلَ اَنْ یَتَّخِذَہُ نَبِیًّا وَ اَنَّ اللّٰہَ اِتَّخَذَہُ نَبِیًّا قَبْلَ اَنْ یَتَّخِذَہُ رَسُوْلاً وَ اِنَّ اللّٰہَ اِتَّخَذَہُ رَسُوْلاً قَبْلَ اَنْ یَتَّخِذَہُ خَلِیْلاً وَ اِنَّ اللّٰہَ اِتَّخَذَہُ خَلِیْلاً قَبْلَ اَنْ یَجْعَلَہُ اِمَاماً فَلَمَّا جَمَعَ لَہُ الْاَشْیَاء قَالَ: اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔ قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ: فَمِنْ عِظَمِھَا فِیْ عَیْنِ اِبْرَاہِیْم قَالَ: وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَا یَنَالُ عَھْدِی الظَّالِمِیْنَ۔ قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ: لَا یَکُوْنُ السَفِیْہُ اِمَامُ التَّقِی ۔ {اصول کافی ۱ : ۱۷۵}

خداوند عالم نے ابراہیم (ع) کو عبد بنایا قبل اس کے کہ انہیں نبی بناتا، خداوند عالم نے انہیں نبی بنایا، قبل اس کے کہ انہیں رسول بناتا۔ خدا نے انہیں رسول بنایا، قبل اس کے کہ انہیں خلیل بناتا اور خدا نے انہیں خلیل بنایا، قبل اس کے کہ انہیں امام بناتا۔ جب حضرت ابراہیم (ع) ان تمام مناصب پر فائز ہو گئے تو اللہ نے فرمایا: میں تمہیں لوگوں کا امام بناتا ہوں۔ امام (ع) فرماتے ہیں کہ جب ابراہیم (ع) کو امامت کی عظمت کا اندازہ ہوا تو عرض کی: میری اولاد سے بھی! ارشاد ہوا: میرا عہد ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: کم عقل آدمی متقی لوگوں کا امام نہیں ہو سکتا۔

یہاں امام علیہ السلام نے ظلم کے مرتکب کو کم عقل قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں بھی ارشاد ہوتا ہے:

وَ مَنۡ یَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّۃِ اِبۡرٰہٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِہَ نَفۡسَہٗ {۲ بقرہ : ۱۳۰}

اب ملت ابراہیم سے کون انحراف کرے گا سوائے اس شخص کے جس نے اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کیا۔

ابن مسعود نے رسول اکرم (ص) سے اس آیت کے بارے میں روایت نقل کی ہے کہ آپ (ص) نے دعائے ابراہیم (ع) کے ذکر کے بعد فرمایا:

فَاِنْتَہَتْ الدَعْوَۃُ اِلَیَّ وَ اِلٰی اَخِیْ عَلِیٍ لَمْ یَسْجُدْ اَحَدٌ مِنَّا لِصَنَمٍ قَطُّ فَاتَّخَذَنِیْ اللّٰہُ نَبِیًّا وَ عَلِیًّا وَصِیًّا ۔ {مواہب الرحمن۲: ۲۰۔ الامالی للطوسی ص ۳۷۸}

دعائے ابراہیم (ع) کا سلسلہ مجھ تک اور میرے بھائی علی (ع) تک پہنچا۔ ہم میں سے کسی نے کبھی کسی بت کو سجدہ نہیں کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے مجھے نبی (ص) اور علی (ع) کو وصی بنایا۔

اہم نکات

۱۔ الٰہی مناصب، امتحان میں کامیابی اورصلاحیتوں کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں۔

۲۔ امامت، احکام خداوندی کے عملی نفاذ کے لیے حاصل شدہ ولایت اور حکمرانی کے حق سے عبارت ہے۔

۳۔ امام جمہوری، استبدادی یا خاندانی بنیاد پر نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے منصوب ہوتا ہے: اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۔

۴۔ امام کسی خاص گروہ کا نہیں بلکہ عالم انسانیت کا رہبر و رہنما ہوتا ہے: لِلنَّاسِ ۔۔۔۔

۵۔ جس کا ماضی داغدار ہو وہ امامت کا اہل نہیں ہو سکتا: لَا یَنَالُ ۔۔۔۔

۶۔ امامت کا مقصد پوری انسانیت کی ہدایت اور دنیاوی و اخروی فلاح ہے۔

تحقیق مزید: الکافی ۱ : ۱۷۵۔ الامالی صدوق ص ۳۷۸۔ شواہد التنزیل ۱ : ۴۱۱۔


آیت 124