آیت 121
 

اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَتۡلُوۡنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ؕ اُولٰٓئِکَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿۱۲۱﴾٪

۱۲۱۔ جنہیں ہم نے کتاب عنایت کی ہے (اور) وہ اس کا حق تلاوت ادا کرتے ہیں، وہی لوگ اس (قرآن) پر ایمان لائیں گے اور جو اس سے کفر اختیار کرے گا پس وہی گھاٹے میں ہے۔

تفسیر آیات

تلاوت کا حق ادا کرنے کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے :

(حق تلاوت ادا کرنے والے لوگ وہ ہیں) جو آیات کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے ہیں اور انہیں سمجھنے کی کو شش کرتے ہیں، اس کے احکام پرعمل کرتے ہیں، اس کے وعدوں کی امید رکھتے ہیں، اس کی تنبیہوں سے خائف رہتے ہیں، اس کے قصوں سے عبرت حاصل کرتے ہیں، اس کے اوامر کی تعمیل کرتے ہیں اور اس کی نواہی سے باز رہتے ہیں۔

حق تلاوت اس طرح ادا نہیں ہوتا کہ صرف آیات کو حفظ کر لیا جائے، اس کے حروف پڑھ لیے جائیں، سورتوں کی تلاوت کی جائے اور اس کے دسویں یا پانچویں حصے کو پڑھ کر ختم کیا جائے۔ ان لوگوں نے اس کے حروف کو تو حفظ کر لیا ہے، مگر اس کے احکام کا تحفظ نہیں کیا۔ حالانکہ حق ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی آیات میں تدبر اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے :یہ ایک بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ (ص) پر نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں غور کریں۔ {روایت کے لیے رجوع فرمائیں ارشاد القلوب ص ۷۸۔ مواھب الرحمن ۱ : ۴۶۳}

رسول کریم (ص)سے منقول ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

رُبَّ تَالِ الْقُرْآنِ وَ الْقُرْآنُ یَلَعَنُہُ۔ {بحار الانوار ۸۹ : ۱۸۴ باب ۱۹ فصل حامل القرآن و حافظ}

بہت سے قاریان قرآن ایسے بھی ہیں جن پر قرآن لعنت کرتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ تلاوت قرآن فہمی اور اس پر عمل کرنے کا نام ہے صرف پڑھنے کا نہیں۔

تحقیق مزید: الوسائل ۶ : ۲۱۷۔ مستدرک الوسائل ۴ : ۲۳۷۔


آیت 121