منصب الٰہی بعد از امتحان


وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ؕ قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ قَالَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۲۴﴾

۱۲۴۔ اور ( وہ وقت یاد رکھو)جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا اور انہوں نے انہیں پورا کر دکھایا، ارشاد ہوا : میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا: اور میری اولاد سے بھی؟ ارشاد ہوا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔

124۔ الٰہی دعوت کے بانی، ارتقائی سفر کے میر کارواں، تحریکِ جہاد کے اولین قائد، بیت اللہ کے معمار، اللہ کی راہ میں پہلے مہاجر اور تاریخ انسانیت کے عظیم بت شکن ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے۔

آپ تین بڑے پیشواؤں حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ علیہما السلام اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے جد اعلیٰ ہیں۔ قدیم کلدانی سلطنت بابل اور موجودہ عراق کے ایک شہر اور میں پیدا ہوئے۔ آپ علیہ السلام نے اپنے فرزندوں کے ذریعے دنیا میں دعوت توحید کے دو مراکز قائم کیے۔ ایک مکہ میں اور دوسرا فلسطین میں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ اور حضرت اسحاق علیہ السلام کو فلسطین میں متعین فرمایا۔ قریش حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں اور بنی اسرائیل حضرت اسحاق علیہ السلام کی۔

یہودیوں کی بد عہدی اور نا شکری، منصب امامت کو ظالموں سے دور رکھنا، بیت اللہ کی تعمیر، اسے پاکیزہ رکھنے کی ذمہ داری سونپنا، تبدیلی قبلہ، نسل اسماعیل علیہ السلام کے لیے دعا، یہ سب کچھ بتاتا ہے کہ انسانیت کی امامت کے لیے نسل اسرائیل کی جگہ اولاد اسماعیل کو منتخب کر لیا گیا ہے۔

اللہ کا فضل و کرم اندھی بانٹ نہیں، بلکہ استحقاق اور اہلیت کی بناء پر ہے اور استحقاق پرکھنے کے لیے امتحان اور میدان عمل ضروری ہیں۔

بعض علماء نے فرمایا ہے: لوگوں کی چار قسمیں ہو سکتی ہیں :٭وہ لوگ جو ساری زندگی ظالم رہے ہوں۔٭ جو آخری عمر میں ظالم رہے ہوں۔ ٭جو ابتدائی زندگی میں ظالم رہے ہوں۔٭ جو زندگی میں کبھی ظالم نہ رہے ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان اس سے بالاتر ہے کہ وہ پہلی اور دوسری قسم کے لوگوں کے لیے امامت کی خواہش کرتے۔ باقی دو قسمیں رہ جاتی ہیں، جن میں سے ایک کے لیے امامت کی نفی کی ہے۔ بنا برایں چوتھی قسم کے لیے امامت ثابت ہو جاتی ہے اور ساتھ عصمت بھی۔