آیت 129
 

رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿۱۲۹﴾٪

۱۲۹۔اے ہمارے رب!ان میں ایک رسول انہی میں سے مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات سنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں (ہر قسم کے رذائل سے) پاک کرے،بے شک تو بڑا غالب آنے والا، حکیم ہے۔

تفسیر آیات

رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ ۔۔۔ اے ہمارے پروردگار اس امت مسلمہ کے درمیان میری آل سے ایک رسول مبعوث فرما۔ مِّنۡہُمۡ کا مرجع ذُرِّیَّۃ ہے، کیونکہ یہ دعا ذریت کے لیے مانگی جا رہی ہے۔

حضرت رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

اَنَا دَعْوَۃُ اَبِیْ اِبْراہِیْم ۔ {الفقیہ ۴ : ۳۶۸}

میں اپنے پدر بزرگوار حضرت ابراہیم(ع)کی دعا ہوں۔

حضرت ابراہیم(ع) نے اپنی اس دعا میں رسول آخر زمان (ص) کے مبعوث ہونے کے تین اہم مقاصد بیان فرمائے ہیں:

۱۔ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ ۔۔۔۔ آیات خدا کی تلاوت، اللہ کی نشانیوں میں تدبر سے عبارت ہے نیز قرآنی آیات کی تلاوت بھی مراد ہے۔

۲۔ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۔۔۔۔ کتاب سے مراد یا تو قرآن ہے یا کائنات کی تکوینی و آفاقی کتاب، جس میں قرآن بھی شامل ہے۔ کیونکہ یہاں تعلیم کتاب اور تلاوت آیات دو الگ چیزوں کے طور پر مذکور ہیں۔ حکمت سے مراد سنت نبوی (ع) بھی لی گئی ہے، جو اسلامی احکام و دستورات پر مشتمل ہے۔ سنت نبوی (ص) انسانیت کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس میں زندگی کے ہر پہلوسے متعلق حکیمانہ فیصلہ موجود ہے۔

۳۔ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ۔ رسول اکرم (ع) کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری انسانی تربیت و تزکیہ ہے۔ اسی سے انسانیت اپنی ارتقائی منازل طے کرتی ہے۔

مزید تشریح کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورۂ بقرہ آیت ۱۵۱۔

اہم نکات

۱۔ شریعت اسلامی سے فکری اور عملی انحراف، انسانی ارتقا کی راہ میں رکاوٹ اور جہل پرستی کی علامت ہے۔

۲۔ آیات الہٰی کی تعلیم نیز لوگوں کی تربیت اور ان کے تزکیے کا عمل سب سے عظیم اور قابل فخر ذمہ داری ہے۔


آیت 129