آیت 12
 

اِذۡ یُوۡحِیۡ رَبُّکَ اِلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیۡ مَعَکُمۡ فَثَبِّتُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ سَاُلۡقِیۡ فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا الرُّعۡبَ فَاضۡرِبُوۡا فَوۡقَ الۡاَعۡنَاقِ وَ اضۡرِبُوۡا مِنۡہُمۡ کُلَّ بَنَانٍ ﴿ؕ۱۲﴾

۱۲۔ (وہ وقت بھی یاد کرو) جب آپ کا رب فرشتوں کو وحی کر رہا تھا کہ تم ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو میں تمہارے ساتھ ہوں، عنقریب میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈالوں گا، لہٰذا تم ان کی گردنوں کے اوپر ضرب لگاؤ اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کی پوروں پر وار کرو۔

تشریح کلمات

بَنَانٍ:

( ب ن ن ) پورے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِذۡ یُوۡحِیۡ رَبُّکَ: فرشتوں کو وحی کی کہ تم ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو۔ یہ کام فرشتوں کے ذمے لگایا۔

۲۔ اَنِّیۡ مَعَکُمۡ: مؤمنوں کو ثابت قدمی دینے کے لیے فرشتوں کو اللہ کی معیت کی ضرورت ہے۔

۳۔ سَاُلۡقِیۡ فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا الرُّعۡبَ: کافروں کے دلوں میں رعب ڈالنا اور ان کو خوف و ہراس میں مبتلاکرنا اللہ نے اپنے ذمے لیا۔ چنانچہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ کفار کے دلوں میں ایک عجیب قسم کا خوف، وحشت طاری تھی۔ مسلمانوں میں قربانی کے جذبات، ان کے شجاعانہ نعرے، عاتکہ کا خواب، طوفانی باد و باران، مکہ میں مسلمانوں کی استقامت کی داستانیں ، یہ سب باتیں ان کے دلوں میں رعب و وحشت ڈالنے کا باعث بنیں۔

۴۔ فَاضۡرِبُوۡا فَوۡقَ الۡاَعۡنَاقِ: اس کے بعد رخ کلام مؤمنین کی طرف ہو جاتا ہے۔ اگرچہ سیاق کلام فرشتوں کے ساتھ ہے تاہم ثابت قدمی مسلمانوں کی طرف اور رعب و وحشت کافروں کی طرف، ایسے سازگار حالات تھے جس میں گردنوں پر ضرب اور ہاتھوں پر چوٹ لگانے کا بہترین موقع میسر آیا۔ اس لیے یہ خطاب مؤمنین کے لیے ہو سکتا ہے۔

۵۔ وَ اضۡرِبُوۡا مِنۡہُمۡ کُلَّ بَنَانٍ: یعنی جسم کے اطراف کو نشانہ بناؤ۔ واضح رہے ہاتھوں اور پاؤں کے زخمی ہونے کی صورت میں انسان بے بس ہو جاتا ہے۔ حرکت و جنبش کے لیے پاؤں اور حملہ کرنے کے لیے ہاتھوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ جب یہ دونوں زخمی حالت میں ہوں تو دشمن بے بس ہو جاتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ثبات قدم کے لیے ایمان شرط ہے: فَثَبِّتُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۔۔۔۔


آیت 12