ایمان ثابت قدمی کا باعث


اِذۡ یُوۡحِیۡ رَبُّکَ اِلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیۡ مَعَکُمۡ فَثَبِّتُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ سَاُلۡقِیۡ فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا الرُّعۡبَ فَاضۡرِبُوۡا فَوۡقَ الۡاَعۡنَاقِ وَ اضۡرِبُوۡا مِنۡہُمۡ کُلَّ بَنَانٍ ﴿ؕ۱۲﴾

۱۲۔ (وہ وقت بھی یاد کرو) جب آپ کا رب فرشتوں کو وحی کر رہا تھا کہ تم ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو میں تمہارے ساتھ ہوں، عنقریب میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈالوں گا، لہٰذا تم ان کی گردنوں کے اوپر ضرب لگاؤ اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کی پوروں پر وار کرو۔

12۔ فرشتوں سے وحی میں فرمایا کہ تم ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو۔ یہ کام فرشتوں کے ذمے لگایا۔ اللہ نے اپنے ذمے لیا کافروں کے دلوں میں رعب ڈالنا اور ان کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنا۔ چنانچہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ کفار کے دلوں میں ایک عجیب قسم کا خوف و وحشت طاری تھا۔ مسلمانوں میں قربانی کے جذبات، ان کے شجاعانہ نعرے، طوفان باد و باران، مکہ میں مسلمانوں کی استقامت کی داستانیں۔ یہ سب باتیں ان کے دلوں میں رعب و وحشت ڈالنے کا باعث بنیں۔ اس کے بعد رخ کلام مومنوں کی طرف مڑ جاتا ہے۔ اگرچہ سیاق کلام فرشتوں کے ساتھ ہے، تاہم ثابت قدمی مسلمانوں کی طرف اور رعب وحشت کافروں کی طرف، ایسے سازگار حالات تھے جس میں گردنوں پر ضرب اور ہاتھوں پر چوٹ لگانے کا بہترین موقع میسر آیا۔ اس لیے یہ خطاب مومنین کے لیے ہو سکتا ہے۔