آیات 17 - 18
 

فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡہُمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمۡ ۪ وَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ۚ وَ لِیُبۡلِیَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡہُ بَلَآءً حَسَنًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۱۷﴾

۱۷۔پس انہیں تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور (اے رسول) جب آپ کنکریاں پھینک رہے تھے اس وقت آپ نے نہیں بلکہ اللہ نے کنکریاں پھینکی تھیں تاکہ اپنی طرف سے مومنوں کو بہتر آزمائش سے گزارے بے شک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔

ذٰلِکُمۡ وَ اَنَّ اللّٰہَ مُوۡہِنُ کَیۡدِ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ یہ تھی تمہاری بات اور رہی کافروں کی بات تو اللہ ان کی مکاری کا زور توڑ دینے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡہُمۡ: ربط کلام اس طرح ہے کہ تم میدان جنگ سے فرار نہ کرو۔ تم کو کافروں سے زیادہ استقامت دکھانی چاہیے کیونکہ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہے، جس نے تمہارے اطمینان قلب اور ثابت قدمی کے اسباب فراہم کیے۔ اس طرح ایک بے سہارا چھوٹے سے لشکر نے بہت بڑی طاقت کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا ہے تو یہ تمہاری قوت بازو سے نہیں ، اللہ کی طرف سے ہے۔ لہٰذا جن کافروں کو تم نے قتل کیا ہے ان کو درحقیقت اللہ نے قتل کیا ہے۔

الواقدی متوفی ۲۰۷ھ نے اپنی کتاب المغازی ۱: ۶۸ میں لکھا ہے۔ خلاصہ یہ ہے:

لشکر قریش سے عتبہ، شیبہ اور ولید آگے بڑھے اور مبارزہ طلب کیا تو انصار کے تین جواں مقابلے میں نکلے تو رسول اللہؐ نے شرمساری کا اظہار کیا اور اس بات کو ناپسند فرمایا کہ مشرکین کے ساتھ پہلی لڑائی میں انصار کو آگے کیا جائے بلکہ اپنے قوم کے افراد کو آگے کرنا پسند فرمایا۔ مشرکین نے بھی پکارا: اے محمد ہماری اپنی قوم سے ہمارے مد مقابل کے لوگ آگے آئیں۔ تو رسول اللہؐ نے بنی ہاشم کے افراد کو حکم دیا: مقابلے کے لیے نکلو۔ چنانچہ حمزہ بن عبد ا لمطلب۔ علی بن ابی طالب، عبیدہ بن حارث بن عبد ا لمطلب نکلے۔ عتبہ نے اپنے بیٹے ولید سے کہا اٹھو لڑو۔ اس کے مقابلے میں علی (علیہ السلام) اٹھے جو سب سے عمر میں چھوٹے تھے اور ولید کو قتل کیا۔ پھر عتبہ خود آگے آیا تو حمزہ مقابلے میں آئے اور عتبہ کو قتل کیا۔ پھر شیبہ آگے آیا۔ اس کے مقابلے میں عبیدہ بن حارث آئے۔ شیبہ نے عبیدہ کے پاؤں پر وار کیا تو حمزہ اور علی نے مل کر اس پر حملہ کیا اور اسے قتل کیا۔

۲۔ وَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی: روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

ناولنی کفا من حصباء فناولہ ۔ (بحار الانوار ۹۱: ۳۲۴)

مجھے مٹھی بھر کنکریاں دے دو۔ حضرت علیؑ نے دے دیں۔

حضورؐ نے یہ کنکریاں دشمن کی طرف پھینکیں تو سب کی آنکھوں میں ریزے بھر گئے۔ ( تفسیر البرہان۔ تفسیر روح المعانی ۹:۱۸۴)

اسلامی افواج نے دشمنوں کا جو قتل کیا ہے اس کی نفی فرما کر یہ نہیں فرمایا: اذ قتلتم جب کہ رسول کریمؐ نے جو کنکریاں پھینکیں ، اس کے بارے میں فرمایا: اِذۡ رَمَیۡتَ ۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ افواج کے قتل کی صرف نفی فرمائی اور اثبات نہیں فرمایا، جب کہ رسول کریمؐ کے عمل کا اثبات بھی فرمایا۔ اس قرآنی تعبیر سے عمل افواج اور عمل رسولؐ میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ ممکن ہے اس میں یہ نکتہ پنہاں ہو کہ اگرچہ قتل اللہ نے کیا اورکنکریاں بھی اللہ نے پھینکیں لیکن یہاں قتل میں افواج اسلام اور کنکریاں پھینکنے میں رسول اسلامؐ ذریعہ ہیں مگر قتل کا ذریعہ قابل اثبات نہیں اور عمل رسول (ص) کو عمل خدا کے ساتھ مؤثر قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ اس طرح عمل رسول (ص) عمل خدا قرار پایا۔

۳۔ وَ لِیُبۡلِیَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡہُ بَلَآءً حَسَنًا: تاکہ اللہ کی طرف سے مؤمنین کی بہتر آزمائش ہو جائے۔ نہایت نامساعد حالات میں اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کے خلاف جنگ میں جھونک دینا بہت بڑی آزمائش ہے۔ ہو سکتا ہے غنیمت میں اختلاف ایک آزمائش ہو نیز ممکن ہے بہتر آزمائش سے مراد فتح ہو کہ بدر کی فتح سے مؤمنین کی آزمائش بھی مقصود تھی۔ کیا وہ اس سے غرور میں آتے ہیں اور اسے اپنا کارنامہ قرار دیتے ہیں یا اسے اللہ کی طرف سے عنایت تصور کرتے ہیں۔

۴۔ ذٰلِکُمۡ وَ اَنَّ اللّٰہَ مُوۡہِنُ کَیۡدِ الۡکٰفِرِیۡنَ: چونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ کافر کی مؤمن پر بالا دستی نہ ہو گی۔ کافروں کی ہر مکاری کا زور توڑ دیا جائے گا۔ اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ کافر کے مقابلے میں مؤمن ہو۔

اہم نکات

۱۔ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی سچے ایمان اور اللہ کی نصرت کی وجہ سے ہوئی: فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡہُمۡ ۔۔

۲۔ رسول اللہؐ کا عمل، اللہ کا عمل ہے: وَ مَا رَمَیۡتَ ۔۔۔۔

۳۔ اللہ مؤمنین سے جو بھی امتحان لے، وہ بہترین آزمائش ہوتی ہے: وَ لِیُبۡلِیَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۔۔۔۔

۴۔ کفار کی سازشوں کو اللہ ناکام بناتا ہے بشرطیکہ ہم سچے مؤمن ہوں : وَ اَنَّ اللّٰہَ مُوۡہِنُ ۔۔۔۔


آیات 17 - 18