آیات 15 - 16
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا زَحۡفًا فَلَا تُوَلُّوۡہُمُ الۡاَدۡبَارَ ﴿ۚ۱۵﴾

۱۵۔اے ایمان والو! جب میدان جنگ میں کافروں سے تمہارا سامنا ہو جائے تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔

وَ مَنۡ یُّوَلِّہِمۡ یَوۡمَئِذٍ دُبُرَہٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوۡ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدۡ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ مَاۡوٰىہُ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿۱۶﴾

۱۶۔اور جس نے اس روز اپنی پیٹھ پھیری مگر یہ کہ جنگی چال کے طور پر ہو یا کسی فوجی دستے سے جا ملنے کے لیے تو (کوئی حرج نہیں ورنہ) وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہو گیا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور وہ بہت بری جگہ ہے۔

تشریح کلمات

زَحۡفًا:

( ز ح ف ) زحف ۔ اصل میں چھوٹے بچوں کے پاؤں گھسیٹ گھسیٹ کر چلنے کے معنوں میں ہے۔ لشکر بھی ہجوم کی وجہ سے آہستہ گھسٹ گھسٹ کر آگے بڑھتا ہے۔

مُتَحَرِّفًا:

التحریف ( ح ر ف ) کنارہ کشی کرنا۔ ایک طرف ہٹ کر کمین گاہ میں بیٹھنا۔

مُتَحَیِّزًا:

حیز ( ح ی ز ) جگہ بنانا۔ ٹھکانا تلاش کرنا۔

تفسیرآیات

۱۔ فَلَا تُوَلُّوۡہُمُ الۡاَدۡبَارَ: جنگ کے میدان سے اپنی جان بچانے کے لیے فرارہونا، دنیا کے حربی قانون میں بہت بڑا جرم ہے۔ اسلامی جنگوں میں دو خصوصیات اور ہوتی ہیں جو باقی جنگوں میں نہیں ہے:

اول یہ کہ اسلامی جنگیں دفاعی ہوتی ہیں ، جارحانہ نہیں ہوتیں۔ لہٰذا ایسی جنگ سے فرار ہونا دفاع وطن، دفاع ناموس اور دفاع مذہب یعنی اللہ کو پشت دکھانے کے مترادف ہوتاہے۔

دوسری یہ کہ اسلامی جنگیں نظریاتی ہوتی ہیں ، جس کے تحت مؤمن اِحدی الحُسنَیَیْن دو نیکیوں میں سے ایک، فتح یا شہادت کا متمنی ہوتا ہے۔ یہ دونوں قابل رشک ہیں۔ فرار کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ان چیزوں پر اس کا ایمان نہیں ہے۔ اس کا فتح سے سروکار ہے نہ شہادت سے کوئی مطلب ہے۔ اس لیے میدان جنگ سے فرار ہونے والا اللہ کے غضب اور جہنم کا سزاوار ہے۔ دو صورتیں فرار کی جائز ہیں جو بظاہر فرار ہے، حقیقتاً فرار نہیں ہے اور وہ یہ ہیں :

الف: پہلی صورت: مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ جنگی چال اور حربی حکمت عملی کے طور پر وقتی پسپائی اختیار کرنا۔ تاکہ دشمن کو نرغے میں لیا جا سکے۔

ب: دوسری صورت میں مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ: فوجی دستے سے جا ملنے کے لیے اگر لڑنے والے منتشر ہو جائیں تو اپنے دستے سے جا ملنے کے لیے واپس آنا فرار نہیں ہے۔یہ دونوں جنگی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔

نہایت ناانصافی کرتے ہیں وہ لوگ جو فرار از جنگ کی حرمت کو صرف جنگ بدر کے ساتھ مخصوص گردانتے ہیں اور اس آیت میں یَوۡمَئِذٍ سے مراد یوم الزحف ہے، نہ یوم بدر۔ کیونکہ جنگ بدر میں اول تو کسی نے فرار نہیں کیا۔ ثانیاً یہ سورہ جنگ بدر کے بعد نازل ہوا۔ ثالثاً اعتبار لفظ کے عموم کا کیا جاتا ہے، نہ سبب کے خصوص کا۔ رابعاً احادیث بھی ہمارے موقف کی تائید میں ہیں۔

رسول کریمؐ سے روایت ہے کہ تین گناہ ایسے ہیں کہ ان کے ساتھ نیکی کا کوئی فائدہ نہیں : ایک شرک، دوسرا والدین کا حق ادا نہ کرنا اور تیسرا جہاد فی سبیل اللّٰہ سے فرار۔

دیگر احادیث میں فرار از جنگ سات ایسے گناہوں میں شمار کیا گیا ہے جن کا ارتکاب کرنے والا تباہ و ہلاک ہو جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو وسائل الشیعہ۔ ۱۵:۳۳۰۔ صحیح بخاری کتاب الوصایا ۔

اہم نکات

۱۔ اسلامی نظریاتی دفاعی جہاد میں میدان جنگ سے فرار گناہ ہے: فَلَا تُوَلُّوۡہُمُ الۡاَدۡبَارَ ۔۔۔۔

۲۔ حربی حکمت عملی کے تحت وقتی طور پر پسپائی جائز ہے: اِلَّا مُتَحَرِّفًا ۔۔۔۔

۳۔ اسلامی جہاد سے فرار انسان کو جہنمی بناتا ہے: فَقَدۡ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ مَاۡوٰىہُ جَہَنَّمُ ۔۔۔۔

۴۔ یہ حکم ایک قانون کلی ہے، بدر سے مختص نہیں۔


آیات 15 - 16