بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ وَ لَہُ الۡحَمۡدُ فِی الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ ہُوَ الۡحَکِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ﴿۱﴾

۱۔ ثنائے کامل اس اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے اور آخرت میں بھی ثنائے کامل اسی کے لیے ہے اور وہ بڑا حکمت والا، خوب باخبر ہے۔

یَعۡلَمُ مَا یَلِجُ فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا یَخۡرُجُ مِنۡہَا وَ مَا یَنۡزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَ مَا یَعۡرُجُ فِیۡہَا ؕ وَ ہُوَ الرَّحِیۡمُ الۡغَفُوۡرُ﴿۲﴾

۲۔ جو کچھ زمین کے اندر جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے سب کو اللہ جانتا ہے اور وہی رحیم غفور ہے۔

2۔زمین کے اندر جو چیزیں جاتی ہیں ان میں سے کچھ تو عام مشاہدے میں آتی ہیں اور کچھ سائنسی مشاہدے میں آتی ہیں۔ یہی حال زمین سے نکلنے والی چیزوں کا ہے کہ ابھی بشر کو علم نہیں کہ کیا چیزیں آسمان سے زمین میں داخل ہوتی اور نکلتی ہیں۔ بشر کو کیا معلوم، کون سی آہ، کون سی دعا، کون سی عبادت اور کون سی روح آسمان کی طرف عروج کرتی ہے اور کون سا حکم یا فیصلہ آسمان سے نازل ہوتا ہے؟

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَا تَاۡتِیۡنَا السَّاعَۃُ ؕ قُلۡ بَلٰی وَ رَبِّیۡ لَتَاۡتِیَنَّکُمۡ ۙ عٰلِمِ الۡغَیۡبِ ۚ لَا یَعۡزُبُ عَنۡہُ مِثۡقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الۡاَرۡضِ وَ لَاۤ اَصۡغَرُ مِنۡ ذٰلِکَ وَ لَاۤ اَکۡبَرُ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ٭ۙ﴿۳﴾

۳۔ اور کفار کہتے ہیں: قیامت ہم پر نہیں آئے گی، کہدیجئے: میرے عالم الغیب رب کی قسم وہ تم پر ضرور آکر رہے گی، آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابر بھی (کوئی چیز) اس سے پوشیدہ نہیں ہے اور نہ ذرے سے چھوٹی چیز اور نہ اس سے بڑی مگر یہ کہ سب کچھ کتاب مبین میں ثبت ہے۔

3۔ جو لوگ حیات اخروی کے اس لیے منکر تھے کہ جب انسان کے اجزا بکھر جائیں گے تو اللہ ان کو دوبارہ کیسے جمع کرے گا؟ جواب میں فرمایا: خواہ ذرات سے چھوٹے اجزا میں بکھر جائیں، اللہ کے علم سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ سورہ واقعہ میں فرمایا: وَ لَقَدۡ عَلِمۡتُمُ النَّشۡاَۃَ الۡاُوۡلٰی ، النَّشۡاَۃَ الۡاُوۡلٰی کا تو تمہیں علم ہے۔ تمہاری تخلیق کے لیے جن ارضی عناصر کو بروئے کار لایا گیا ہے وہ بھی دنیا کے اطراف میں منتشر اجزاء تھے جو تمہارے دستر خوان پر جمع ہوئے، جن سے تمہارا خون بنا، نطفہ بنا، پھر تمہاری تخلیق ہوئی۔

لِّیَجۡزِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ﴿۴﴾

۴۔ تاکہ اللہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل انجام دینے والوں کو جزا دے، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے مغفرت اور رزق کریم ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ سَعَوۡ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا مُعٰجِزِیۡنَ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ مِّنۡ رِّجۡزٍ اَلِیۡمٌ﴿۵﴾

۵۔ اور جنہوں نے ہماری آیات کے بارے میں کوشش کی کہ (ہم کو) مغلوب کریں ان کے لیے بلا کا دردناک عذاب ہے۔

4۔ 5 قیامت کی حقانیت عقل و فطرت کے مطابق ہے۔ہر شخص کا ضمیر یہ چاہتا ہے کہ ظالم کو اس کے ظلم کا اور نیکی کرنے والے کو اس کی نیکی کا بدلہ ملے۔ یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ انسانی ضمیر ایک غیر موجود چیز کی خواہش نہیں کرتا، جیسا کہ انسان کا مزاج بھی غیر موجود چیز کی خواہش نہیں کرتا۔ چنانچہ پیاس دلیل ہے کہ اسے بجھانے والی شے موجود ہے اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ دنیا میں نیکی اور بدی کا بدلہ نہیں ملتا بلکہ یہاں تو بدی کے ارتکاب کرنے والے پھلتے پھولتے ہیں۔ لہٰذا قیامت کے وجود پر انسان کا ضمیر اور وجدان گواہی دیتا ہے۔

وَ یَرَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ہُوَ الۡحَقَّ ۙ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرَاطِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَمِیۡدِ﴿۶﴾

۶۔ اور جنہیں علم دیا گیا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر جو کچھ نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے اور وہ بڑے غالب آنے والے اور قابل ستائش (اللہ) کی راہ کی طرف ہدایت کرتا ہے۔

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ہَلۡ نَدُلُّکُمۡ عَلٰی رَجُلٍ یُّنَبِّئُکُمۡ اِذَا مُزِّقۡتُمۡ کُلَّ مُمَزَّقٍ ۙ اِنَّکُمۡ لَفِیۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ ۚ﴿۷﴾

۷۔ اور کفار کہتے ہیں: کیا ہم تمہیں ایک ایسے آدمی کا پتہ بتائیں جو تمہیں یہ خبر دیتا ہے کہ جب تم مکمل طور پر پارہ پارہ ہو جاؤ گے تو بلاشبہ تم نئی خلقت پاؤ گے ؟

اَفۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَمۡ بِہٖ جِنَّۃٌ ؕ بَلِ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ فِی الۡعَذَابِ وَ الضَّلٰلِ الۡبَعِیۡدِ﴿۸﴾

۸۔ اس نے اللہ پر جھوٹ بہتان باندھا ہے یا اسے جنون لاحق ہے؟ (نہیں) بلکہ (بات یہ ہے کہ) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ لوگ عذاب میں اور گہری گمراہی میں مبتلا ہیں۔

7۔8 از راہ تمسخر یہ بات کرتے تھے کہ اس شخص کا مسئلہ دو حال سے خالی نہیں ہے۔ یا تو یہ جان بوجھ کر اللہ پر بہتان باندھتا ہے کہ قیامت ہے یا یہ شخص دیوانہ ہے۔ (نعوذ باللّٰہ) اہل مکہ بخوبی جانتے تھے کہ دیوانہ والی بات درست نہیں ہے، لہٰذا وہ جھوٹ والی بات پر زور دیتے تھے۔ اگرچہ اہل مکہ کو معلوم تھا کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔

اَفَلَمۡ یَرَوۡا اِلٰی مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اِنۡ نَّشَاۡ نَخۡسِفۡ بِہِمُ الۡاَرۡضَ اَوۡ نُسۡقِطۡ عَلَیۡہِمۡ کِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّکُلِّ عَبۡدٍ مُّنِیۡبٍ ٪﴿۹﴾

۹۔ کیا انہوں نے اپنے آگے اور پیچھے محیط آسمان اور زمین کو نہیں دیکھا؟ اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا آسمان سے ان پر ٹکڑے برسا دیں یقینا اس میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ہر بندے کے لیے نشانی ہے۔

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضۡلًا ؕ یٰجِبَالُ اَوِّبِیۡ مَعَہٗ وَ الطَّیۡرَ ۚ وَ اَلَنَّا لَہُ الۡحَدِیۡدَ ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ اور بتحقیق ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے فضیلت دی، (اور ہم نے کہا) اے پہاڑو! اس کے ساتھ(تسبیح پڑھتے ہوئے) خوش الحانی کرو اور پرندوں کو بھی(یہی حکم دیا) اور ہم نے لوہے کو ان کے لیے نرم کر دیا

1۔حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ خوش الحانی کرنے کا حکم صریح طور پر بتاتا ہے کہ پہاڑ اور پرندے بھی ایک قسم کا شعور رکھتے ہیں۔ البتہ یہ حضرت داؤد علیہ السلام کا معجزہ ہے کہ ان کی خوش الحانی اس قدر مؤثر تھی کہ پہاڑ کے شعور تک ان کی رسائی ہوتی تھی۔