آیت 2
 

یَعۡلَمُ مَا یَلِجُ فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا یَخۡرُجُ مِنۡہَا وَ مَا یَنۡزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَ مَا یَعۡرُجُ فِیۡہَا ؕ وَ ہُوَ الرَّحِیۡمُ الۡغَفُوۡرُ﴿۲﴾

۲۔ جو کچھ زمین کے اندر جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے سب کو اللہ جانتا ہے اور وہی رحیم غفور ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یَعۡلَمُ مَا یَلِجُ فِی الۡاَرۡضِ: زمین کے اندر جو چیزیں جاتی ہیں ان میں سے کچھ توعام مشاہدے، کچھ سائنسی مشاہدے میں آتی ہیں۔ یہی حال زمین سے نکلنے والی چیزوں کا ہے لیکن یہ چیزیں غیر اللہ کے علم میں بھی ہیں۔ انسان کوعلم ہے کہ دانے زیر خاک جاکر انسان کے لیے کام کی چیزیں لے کر نکلتے ہیں۔ جڑیں زیر زمین جاکردرختوں کو سہارا دیتی ہیں۔ پانی زمین کی تہوں میں جا کر زمین کو زندہ کر دیتا ہے۔ مختلف قسم کی گیسز اور آفتابی شعاعیں زمین کے اندر جاکر انسان کے لیے سامان زیست فراہم کرتی ہیں۔

لیکن یہ صرف اللہ جانتا ہے کہ زمین کے اندر جانے والے دانے، جڑیں، پانی و دیگر چیزیں اللہ کی طرف سے کیا حکم لے کر جاتی ہیں۔ پانی کو اللہ نے کیا حکم دیا ہے اور پانی زمین کے اندر جا کر کون سی ذمے داریوں کو ادا کرتا ہے۔ دانہ زمین میں کس ترکیب عناصر کا حکم لے کر جاتا ہے۔ انسان کو تو عناصر کی ترکیب وجود میں آنے کے بعد علم ہوتا ہے کہ اس دانے نے زمین سے کون کون سے عناصر کا انتخاب کر کے یہ پھل نکالا ہے لیکن یہ صرف اللہ جانتا ہے کہ زمین کے اندر جانے والے لاتعداد دانوں میں سے ہر ایک دانہ کس خاصیت کے عناصر کو ترکیب دینے والا ہے۔

واضح رہے کہ دانے کو علم ہے کہ اس نے زمین سے کس قسم کے عناصر کو ترکیب دینا ہے تاکہ مطلوبہ خاصیت کا پودا وجود میں آئے۔ یہ اس ہدایت کے تحت ہے جو اللہ نے اس دانے میں ودیعت فرمائی ہے۔

۲۔ وَ مَا یَخۡرُجُ مِنۡہَا: اور جو کچھ اس زمین سے نکلتا ہے وہ صرف اللہ جانتا ہے۔ جو چیزیں بشر کے علم میں ہیں وہ نہایت ناچیز ہیں اس علم الٰہی کے مقابلے میں جوزمین سے خارج ہونے والی حیات آفریں چیزوں کے بارے میں ہے۔

۳۔ وَ مَا یَنۡزِلُ مِنَ السَّمَآءِ: یہ بات بھی صرف اللہ جانتا ہے کہ آسمان سے کون سا حکم کون سا فیصلہ اور کون سی تقدیر نازل ہوتی ہے۔ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَیِّنٰتِ وَ الۡہُدٰی۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۱۵۹ ) اور کس قسم کی رحمتیں اہل ارض پر نازل ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں بشر صرف محسوسات اور مادیات کو جان سکتے ہیں۔ جیسے بارش کا پانی۔ سورج کی شعاعیں وغیرہ۔

۴۔ وَ مَا یَعۡرُجُ فِیۡہَا: بشر کو کیا معلوم کون سی آہ، کون سی دعا، کون سی عبادت اور کون سی روح آسمان کی طرف عروج کرتی ہے۔ بشر صرف آسمان کی طرف بلند ہونے والی محسوسات و مادیات کو جانتا ۔

۵۔ وَ ہُوَ الرَّحِیۡمُ الۡغَفُوۡرُ: اس جملے میں باقی مقامات کے برخلاف مقام رحیمیت کا ذکر پہلے آیا۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ زمین میں داخل اور خارج ہونے والی اشیاء اور آسمان سے نزول و عروج کرنے والی چیزیں اللہ کی طرف سے رحمتوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ان نعمتوں کا حق ادا نہ کرنے کی صورت میں عفو اور درگزر سے کام لیتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ کائنات کا نظام اسی دخول و خروج اور نزول و عروج پر قائم ہے۔

۲۔ اسی رفت و آمد سے نظام کائنات باہم مربوط ہے۔


آیت 2