آیت 3
 

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَا تَاۡتِیۡنَا السَّاعَۃُ ؕ قُلۡ بَلٰی وَ رَبِّیۡ لَتَاۡتِیَنَّکُمۡ ۙ عٰلِمِ الۡغَیۡبِ ۚ لَا یَعۡزُبُ عَنۡہُ مِثۡقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الۡاَرۡضِ وَ لَاۤ اَصۡغَرُ مِنۡ ذٰلِکَ وَ لَاۤ اَکۡبَرُ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ٭ۙ﴿۳﴾

۳۔ اور کفار کہتے ہیں: قیامت ہم پر نہیں آئے گی، کہدیجئے: میرے عالم الغیب رب کی قسم وہ تم پر ضرور آکر رہے گی، آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابر بھی (کوئی چیز) اس سے پوشیدہ نہیں ہے اور نہ ذرے سے چھوٹی چیز اور نہ اس سے بڑی مگر یہ کہ سب کچھ کتاب مبین میں ثبت ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لَا تَاۡتِیۡنَا السَّاعَۃُ: لوگ حیات اخروی اور اعادۂ حیات کے اس لیے منکر تھے کہ جب انسان کے بدن کے اجزا بکھر جائیں گے اور بعض اوقات دوسرے اجسام کا حصہ بن جائیں گے تو ان کودوبارہ کیسے جمع کرے گا؟:

مَنۡ یُّحۡیِ الۡعِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیۡمٌ﴿۷۸﴾ (۳۶ یٰس : ۷۸)

ان ہڈیوں کو خاک ہونے کے بعد کون زندہ کرے گا؟

جواب میں فرمایا: خواہ ذرات سے چھوٹے اجزا میں بکھر جائیں اللہ کے علم سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ سورہ واقعہ میں فرمایا: وَ لَقَدۡ عَلِمۡتُمُ النَّشۡاَۃَ الۡاُوۡلٰی۔۔۔۔ (۵۶ واقعۃ: ۶۲) تمہیں نشاۃَ اولی کا تو علم ہے کہ تمہاری تخلیق کے لیے جن ارضی عناصر کو بروئے کارلایا گیا ہے وہ بھی دنیاکے اطراف میں منتشر اجزا تھے جو تمہارے دسترخوان پر جمع ہوئے، جن سے تمہارا خون بنا، نطفہ بنا پھر تمہاری تخلیق ہوئی۔

اَفَعَیِیۡنَا بِالۡخَلۡقِ الۡاَوَّلِ ؕ بَلۡ ہُمۡ فِیۡ لَبۡسٍ مِّنۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ﴿۱۵﴾ (۵۰ ق: ۱۵)

کیا ہم پہلی بار کی تخلیق سے عاجز آگئے تھے؟ بلکہ یہ لوگ نئی تخلیق کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔

۲۔ وَ لَاۤ اَصۡغَرُ مِنۡ ذٰلِکَ وَ لَاۤ اَکۡبَرُ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ: کتاب مبین کے بارے میں تشریح سورہ انعام آیت ۵۹ میں ہو چکی ہے۔

وَ مَا مِنۡ غَآئِبَۃٍ فِی السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ﴿۷۵﴾ (۲۷ نمل: ۷۵)

اور آسمان اور زمین میں کوئی ایسی پوشیدہ بات نہیں ہے جو کتاب مبین میں نہ ہو۔

لہٰذا کوئی ذرہ ایسا نہیں ہے جو اللہ کی کتاب مبین میں ثبت نہ ہو۔ ان ذرات کو جمع کرنا اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ علم خدا سے کوئی شے پوشیدہ نہیں ہو سکتی۔

۲۔ اللہ کی کتاب مبین میں ہرچیز ثبت ہے۔


آیت 3