مَّلۡعُوۡنِیۡنَ ۚۛ اَیۡنَمَا ثُقِفُوۡۤا اُخِذُوۡا وَ قُتِّلُوۡا تَقۡتِیۡلًا ﴿۶۱﴾

۶۱۔ یہ لعنت کے سزاوار ہوں گے، وہ جہاں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بری طرح سے مارے جائیں گے۔

سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلُ ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا﴿۶۲﴾ ۞ٙ

۶۲۔جو پہلے گزر چکے ہیں ان کے لیے بھی اللہ کا یہی دستور رہا ہے اور اللہ کے دستور میں آپ کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔

یَسۡـَٔلُکَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَۃِ ؕ قُلۡ اِنَّمَا عِلۡمُہَا عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ تَکُوۡنُ قَرِیۡبًا﴿۶۳﴾

۶۳۔ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے اور تجھے کیا خبر شاید قیامت قریب ہو؟

اِنَّ اللّٰہَ لَعَنَ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ سَعِیۡرًا ﴿ۙ۶۴﴾

۶۴۔ بلاشبہ اللہ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے،

خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ۚ لَا یَجِدُوۡنَ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیۡرًا ﴿ۚ۶۵﴾

۶۵۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہ نہ کوئی حامی پائیں گے اور نہ مددگار۔

یَوۡمَ تُقَلَّبُ وُجُوۡہُہُمۡ فِی النَّارِ یَقُوۡلُوۡنَ یٰلَیۡتَنَاۤ اَطَعۡنَا اللّٰہَ وَ اَطَعۡنَا الرَّسُوۡلَا﴿۶۶﴾

۶۶۔ اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹائے پلٹائے جائیں گے، وہ کہیں گے: اے کاش! ہم نے اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی۔

وَ قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّاۤ اَطَعۡنَا سَادَتَنَا وَ کُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوۡنَا السَّبِیۡلَا﴿۶۷﴾

۶۷۔ اور وہ کہیں گے: ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی تھی پس انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا۔

رَبَّنَاۤ اٰتِہِمۡ ضِعۡفَیۡنِ مِنَ الۡعَذَابِ وَ الۡعَنۡہُمۡ لَعۡنًا کَبِیۡرًا﴿٪۶۸﴾

۶۸۔ ہمارے رب! تو انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت بھیج ۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اٰذَوۡا مُوۡسٰی فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوۡا ؕ وَ کَانَ عِنۡدَ اللّٰہِ وَجِیۡہًا ﴿ؕ۶۹﴾

۶۹۔ اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو اذیت دی تھی پھر اللہ نے ان کے الزام سے انہیں بری ثابت کیا اور وہ اللہ کے نزدیک آبرو والے تھے۔

69۔ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت دینے والوں کو ایمان والے کہنے کا مطلب یہ ہے: اے ایمان کے دعویدارو! اپنے ایمان کے تقاضے پورے کرو۔ فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ پھر اللہ نے انہیں بری کیا سے معلوم ہوتا ہے یہ ایذا بہتان تراشی کی صورت میں تھی۔ حضرت زینب کے ساتھ شادی اور مال کی تقسیم کے بارے میں بعض لوگوں سے یہ جرم سرزد ہوا تھا۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ﴿ۙ۷۰﴾

۷۰۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی (مبنی برحق) باتیں کیا کرو۔

70۔ تقویٰ اور قول سدید یعنی درست اور سنجیدہ باتوں کا لازمی نتیجہ اعمال کی اصلاح اور کردار کی تعمیر ہے۔ چونکہ اس صورت میں اس کا کردار جھوٹ اور زمین میں ذرہ برابر بھی (کوئی چیز) اس بہتان، غیبت، لغویات اور شر انگیزی سے پاک ہو گا۔

یُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا﴿۷۱﴾

۷۱۔ اللہ تمہارے اعمال کی اصلاح فرمائے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمائے گا اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی پس اس نے عظیم کامیابی حاصل کی۔

اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا ﴿ۙ۷۲﴾

۷۲۔ ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو ان سب نے اسے اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا، انسان یقینا بڑا ظالم اور نادان ہے۔

72۔ اس بار امانت کو اٹھانے کی صلاحیت صرف انسان کے پاس تھی، کیونکہ انسان ہی ارادہ، معرفت اور اختیار کا مالک ہے۔ جو اپنے ارادے کا مالک ہے وہی امتحان کے میدان میں قدم رکھ سکتا ہے اور جو امتحان کے میدان میں قدم رکھ سکتا ہے اس کے لیے کامیابی و ناکامی کا تصور ہوتا ہے۔ چنانچہ جو علم کی اہلیت رکھتا ہے، لیکن علم نہیں رکھتا ہے تو اس کو جاہل کہا جا سکتا ہے اور جو عدل و انصاف پر قائم رہنے کی اہلیت رکھتا ہے اور عدل پر قائم نہ رہے اس کو ظالم کہا جا سکتا ہے اور مسلوب الارادہ پہاڑ کو نہ ظالم کہا جا سکتا ہے، نہ ہی جاہل۔ انسان چونکہ اپنے ارادے کا خود مالک ہے، لہٰذا وہ اس ارادے کو مثبت سمت میں لے جا سکتا ہے اور منفی سمت کی طرف بھی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس امانت سے کیا مراد ہے۔ یہ امانت وہ چیز ہے جس کے اٹھانے کے نتیجے میں انسان ظالم اور جاہل ہو سکتا ہے اور وہ مکلف (خدا کی طرف سے خیر و شر کا ذمہ دار) قرار پاتا ہے۔ چنانچہ آسمانوں، زمین اور پہاڑوں میں سے صرف انسان ہی مکلف (ذمہ داری کا حامل) ہے نیز اس کے بعد کی آیت کا سیاق بھی یہ بتاتا ہے کہ اس امانت کے نتیجے میں منافقین کو عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور مومنین کو اللہ اپنی رحمت سے نوازے گا۔ واضح رہے اس ذمہ داری میں توحید و رسالت کے بعد محبت اہل بیت علیہ السلام سرفہرست ہے۔ جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے۔

لِّیُعَذِّبَ اللّٰہُ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ وَ الۡمُشۡرِکٰتِ وَ یَتُوۡبَ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿٪۷۳﴾

۷۳۔ تاکہ (نتیجے میں) اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرکہ عورتوں کو عذاب دے اور اللہ مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو معاف کرے اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحیم ہے۔