آیات 7 - 8
 

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ہَلۡ نَدُلُّکُمۡ عَلٰی رَجُلٍ یُّنَبِّئُکُمۡ اِذَا مُزِّقۡتُمۡ کُلَّ مُمَزَّقٍ ۙ اِنَّکُمۡ لَفِیۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ ۚ﴿۷﴾

۷۔ اور کفار کہتے ہیں: کیا ہم تمہیں ایک ایسے آدمی کا پتہ بتائیں جو تمہیں یہ خبر دیتا ہے کہ جب تم مکمل طور پر پارہ پارہ ہو جاؤ گے تو بلاشبہ تم نئی خلقت پاؤ گے ؟

اَفۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَمۡ بِہٖ جِنَّۃٌ ؕ بَلِ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ فِی الۡعَذَابِ وَ الضَّلٰلِ الۡبَعِیۡدِ﴿۸﴾

۸۔ اس نے اللہ پر جھوٹ بہتان باندھا ہے یا اسے جنون لاحق ہے؟ (نہیں) بلکہ (بات یہ ہے کہ) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ لوگ عذاب میں اور گہری گمراہی میں مبتلا ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا: کافر لوگ تصور قیامت کو ناممکن تصور کر کے آپس میں یا ان کے بڑے لوگ اپنے زیر اثر لوگوں سے کہتے تھے: کیا ہم تمہیں ایسے آدمی کا پتہ بتائیں جو ایک عجیب بات کرتا ہے کہ جب تم مرنے کے بعد مکمل طور پر خاک کے ذروں میں گم ہوجاؤ گے تو تم پھر زندہ ہو جاؤ گے:

وَ قَالُوۡۤا ءَ اِذَا ضَلَلۡنَا فِی الۡاَرۡضِ ءَ اِنَّا لَفِیۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ۔۔۔۔ (۳۲ سجدہ: ۱۰)

وہ کہتے ہیں کہ جب ہم زمین میں ناپید ہو جائیں گے تو کیا ہم نئی خلقت میں آئیں گے؟

۲۔ اَفۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَمۡ بِہٖ جِنَّۃٌ: وہ کہتے تھے کہ اس شخص کا قول دو حال سے خالی نہیں ہے: یا تو یہ شخص اللہ پر بہتان باندھتا ہے اور اس بات کی نسبت اللہ کی طرف سے دیتا ہے کہ اللہ ایک محال ناممکن کام انجام دے گا اور مرنے کے بعد لوگوں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ مشرکین اللہ کے وجود کے قائل ہیں، آخرت کے قائل نہیں ہیں۔ مشرکین بھی اس بات کو برا سمجھتے تھے کہ اللہ کی طرف جھوٹی نسبت دی جائے۔

یا یہ شخص دیوانہ ہے اس وجہ سے یہ اس قسم کی نامعقول باتیں کرتا ہے۔ اہل مکہ بخوبی جانتے تھے کہ دیوانہ والی بات درست نہیں ہے لہٰذا وہ بہتان والی بات پر زور دیتے تھے اگرچہ اہل مکہ کو معلوم تھا کہ آپؐ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔

۳۔ بَلِ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ: جواب میں فرمایا: ہمارے رسول میں یہ دونوں باتیں نہیں ہیں۔ البتہ تم میں دو باتیں موجود ہیں: ایک عذاب اور دوسری گمراہی چونکہ تم میں ایمان کی روشنی نہیں ہے۔ وہ تاریکی میں ہونے کی وجہ سے گمراہ تو ہیں ہی، ساتھ عذاب میں بھی ہیں۔ ممکن ہے اس عذاب کا اشارہ دنیا کے عذاب کی طرف ہو جس میں قیامت پر ایمان نہ رکھنے والے لوگ مبتلا رہتے ہیں۔ ایمان بہ آخرت نہ ہونے کی وجہ سے ان کے پاس دنیا میں پیش آنے والی تلخیوں کی کوئی توجیہ نہیں ہے اس لیے وہ آخرت کے عذاب سے پہلے دنیا کے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی طرف جھوٹی نسبت دینے کو مشرکین بھی برا سمجھتے تھے۔

۲۔ عدم ایمان بہ آخرت، دنیا میں بھی عذاب کا موجب ہے۔


آیات 7 - 8