بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

الٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۟﴿۱﴾

۱۔ الف لام را، یہ واضح کتاب کی آیات ہیں۔

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ﴿۲﴾

۲۔ ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا تاکہ تم سمجھ سکو۔

نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ اَحۡسَنَ الۡقَصَصِ بِمَاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ ٭ۖ وَ اِنۡ کُنۡتَ مِنۡ قَبۡلِہٖ لَمِنَ الۡغٰفِلِیۡنَ﴿۳﴾

۳۔ ہم اس قرآن کو آپ کی طرف وحی کر کے آپ سے بہترین قصہ بیان کرنا چاہتے ہیں اور آپ اس سے پہلے (ان واقعات سے) بے خبر تھے۔

3۔ اس قصے کو قرآن نے احسن القصص اس لیے کہا کہ اس میں متعدد کرداروں اور ان کے انجام کا ذکر ہے۔ پدری شفقت، آتش حسد اور اس کا انجام، اسارت و غلامی، پر تعیش زندگی، عورت کی مکاری، پاکدامنی و عفت کی راہ میں قربانی، زندان کی زندگی۔ صرف اللہ سے امیدیں وابستہ کرنے کا درس، طاقت کے باوجود عفو و درگزر، حکمرانی کے آداب، عدل و انصاف، قحط زدہ سالوں میں اقتصادی منصوبہ بندی کی اہمیت وغیرہ۔

اِذۡ قَالَ یُوۡسُفُ لِاَبِیۡہِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ رَاَیۡتُ اَحَدَ عَشَرَ کَوۡکَبًا وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ رَاَیۡتُہُمۡ لِیۡ سٰجِدِیۡنَ﴿۴﴾

۴۔ جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا : اے بابا! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو دیکھا ہے اور سورج اور چاند کو میں نے دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔

4۔ یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام۔ آپ غالباً 1910 قبل مسیح میں فلسطین کی وادی حبرون جسے آج کل الخلیل کہتے ہیں، میں پیدا ہوئے۔ گیارہ ستاروں سے مراد حضرت یوسف کے گیارہ بھائی اور سورج چاند سے مراد آپ کے والدین ہیں اور سجدے سے مراد تعظیمی سجدہ ہے۔ آپ علیہ السلام کے زمانے کے شاہان عربی النسل تھے جو فلسطین و شام کے ساتھ مصر پر بھی حکمرانی کرتے تھے۔ عرب مؤرخ انہیں عمالیق کہتے ہیں۔ بعض مؤرخین کی تحقیقات کے مطابق حضرت یوسف، بادشاہ رع کانن کے زمانے میں مصر آ گئے، جسے عرب ریان بن ولید کا نام دیتے ہیں۔ جن لوگوں نے آپ علیہ السلام کو کنویں سے نکالا، انہوں نے آپ علیہ السلام کو مصری پولیس کے سربراہ فودطینا کے ہاتھ فروخت کیا۔ (دائرۃ المعارف فرید وجدی)

شاید یہی وجہ ہو کہ قرآن حضرت یوسف علیہ السلام کے معاصر بادشاہ کو فرعون کا نام نہیں دیتا، کیونکہ فرعون مصریوں کی مذہبی اصطلاح تھی۔

قرآنی تصریح کے مطابق خواب سے آئندہ نگری ہوتی ہے اور آنے والے واقعات جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتے، ماورائے طبیعی آنکھوں سے نظر آتے ہیں۔ یہ بات روح کے تجرد اور استقلال پر ایک دلیل بھی سمجھی جاتی ہے۔ چونکہ روح غیر مادی ہونے کی وجہ سے زمان و مکان کی حد بندی میں مقید نہیں ہوتی لہٰذا اس کے لیے حال و مستقبل، قریب و بعید میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

قَالَ یٰبُنَیَّ لَا تَقۡصُصۡ رُءۡیَاکَ عَلٰۤی اِخۡوَتِکَ فَیَکِیۡدُوۡا لَکَ کَیۡدًا ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ لِلۡاِنۡسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ﴿۵﴾

۵۔ کہا : بیٹا ! اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا ورنہ وہ آپ کے خلاف کوئی چال سوچیں گے کیونکہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے ۔

وَ کَذٰلِکَ یَجۡتَبِیۡکَ رَبُّکَ وَ یُعَلِّمُکَ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ وَ یُتِمُّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکَ وَ عَلٰۤی اٰلِ یَعۡقُوۡبَ کَمَاۤ اَتَمَّہَا عَلٰۤی اَبَوَیۡکَ مِنۡ قَبۡلُ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡحٰقَ ؕ اِنَّ رَبَّکَ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ٪﴿۶﴾

۶۔ اور آپ کا رب اسی طرح آپ کو برگزیدہ کرے گا اور آپ کو خوابوں کی تعبیر سکھائے گا اور آپ پر اور آل یعقوب پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے آپ کے اجداد ابراہیم و اسحاق پر کر چکا ہے، بے شک آپ کا رب بڑا علم والا، حکمت والا ہے۔

6۔ حضرت یعقوب علیہ السلام خواب کی تعبیر بیان فرماتے ہیں کہ حقیقت بھی اسی طرح ہے جس طرح آپ علیہ السلام نے خواب میں دیکھا ہے کہ اللہ نے آپ علیہ السلام کو ایک منصب کے لیے برگزیدہ کیا ہے اور علم تاویل سے نوازا ہے، جس کے ذریعے ہر معاملے کے انجام کو سمجھ سکو گے، جس میں تعبیر خواب سر فہرست ہے۔ یہ نظریہ درست نہیں ہے کہ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ سے مراد صرف خواب کی تعبیر ہے، بلکہ ہر معاملے کے انجام کا آپ علیہ السلام کو علم دیا گیا تھا۔

لَقَدۡ کَانَ فِیۡ یُوۡسُفَ وَ اِخۡوَتِہٖۤ اٰیٰتٌ لِّلسَّآئِلِیۡنَ﴿۷﴾

۷۔ بتحقیق یوسف اور اس کے بھائیوں (کے قصے) میں پوچھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

7۔ اس قصے میں رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صداقت و حقانیت کی چند نشانیاں موجود ہیں کیونکہ اہل عرب اس قصے سے بالکل ناواقف تھے اور اس تاریخی واقعے کو اخذ کرنے کا کوئی ذریعہ بھی نہ تھا اور خود واقعے میں اللہ کی حکمت و قدرت کی نشانیاں ہیں۔

اِذۡ قَالُوۡا لَیُوۡسُفُ وَ اَخُوۡہُ اَحَبُّ اِلٰۤی اَبِیۡنَا مِنَّا وَ نَحۡنُ عُصۡبَۃٌ ؕ اِنَّ اَبَانَا لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنِۣ ۚ﴿ۖ۸﴾

۸۔ جب بھائیوں نے ـ(آپس میں) کہا: یوسف اور اس کا بھائی ہمارے ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم ایک جماعت ہیں، بے شک ہمارے ابا تو صریح غلطی پر ہیں۔

8۔ یوسف علیہ السلام کے بھائی سے مراد بنیامین ہیں۔ یہ دونوں ایک ماں کے بطن سے تھے اور سب بھائیوں میں چھوٹے تھے۔ باقی سوتیلے بھائی تھے۔

اقۡتُلُوۡا یُوۡسُفَ اَوِ اطۡرَحُوۡہُ اَرۡضًا یَّخۡلُ لَکُمۡ وَجۡہُ اَبِیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ قَوۡمًا صٰلِحِیۡنَ﴿۹﴾

۹۔ یوسف کو مار ڈالو یا اسے کسی سر زمین میں پھینک دو تاکہ تمہارے ابا کی توجہ صرف تمہاری طرف ہو جائے اور اس کے بعد تم لوگ نیک بن جاؤ گے۔

9۔ اس آیت میں مفادات کے لیے نا جائز ذرائع کے استعمال اور اس میں ناکامی کی ایک عبرت انگیز مثال کا ذکر ہے۔

قَالَ قَآئِلٌ مِّنۡہُمۡ لَا تَقۡتُلُوۡا یُوۡسُفَ وَ اَلۡقُوۡہُ فِیۡ غَیٰبَتِ الۡجُبِّ یَلۡتَقِطۡہُ بَعۡضُ السَّیَّارَۃِ اِنۡ کُنۡتُمۡ فٰعِلِیۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ ان میں سے ایک کہنے والا بولا:یوسف کو قتل نہ کرو (اور اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو) اسے کسی گہرے کنویں میں ڈال دو کوئی قافلہ اسے نکال کر لے جائے گا۔

10۔ دوسری تجویز منظور کر لی گئی۔ چنانچہ یہی طے ہوا کہ ایک گہرے کنویں میں پھینک دیا جائے تاکہ راہ گزر لوگ اسے نامعلوم جگہ لے جائیں۔ چنانچہ اس زمانے میں تجارتی قافلوں کے راستے میں کنویں ہوا کرتے تھے اور فلسطین کے جنوب مشرقی علاقوں میں مصر اور فلسطین کے درمیان تجارتی قافلوں کی آمد و رفت رہتی تھی۔