آیت 8
 

اِذۡ قَالُوۡا لَیُوۡسُفُ وَ اَخُوۡہُ اَحَبُّ اِلٰۤی اَبِیۡنَا مِنَّا وَ نَحۡنُ عُصۡبَۃٌ ؕ اِنَّ اَبَانَا لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنِۣ ۚ﴿ۖ۸﴾

۸۔ جب بھائیوں نے ـ(آپس میں) کہا: یوسف اور اس کا بھائی ہمارے ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم ایک جماعت ہیں، بے شک ہمارے ابا تو صریح غلطی پر ہیں۔

تشریح کلمات

العصبۃ:

( ع ص ب ) وہ جماعت جس کے افراد ایک دوسرے کے حامی اور مددگار ہوں۔ یہ وہ جمع ہے جس کا مفرد نہیں ہوتا۔ جیسے قوم، قبیلہ کا مفرد نہیں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِذۡ قَالُوۡا لَیُوۡسُفُ وَ اَخُوۡہُ اَحَبُّ: یوسف علیہ السلام کے بھائی سے مراد بنیامین ہیں۔ یہ دونوں ایک ماں کے بطن سے تھے اور سب بھائیوں میں یہ چھوٹے تھے۔ روایات کے مطابق ان کی والدہ راحیل فوت ہو چکی تھیں لہٰذا حضرت یعقوب علیہ السلام ان دونوں بچوں پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ اس کے علاوہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو علم تھا کہ یوسف علیہ السلام ہی نے سلسلہ نبوت کا وارث بننا ہے۔

۲۔ وَ نَحۡنُ عُصۡبَۃٌ: قبائلی زندگی میں تحفظ کا مدار خاندان کی افرادی قوت پر ہوتا تھا۔ اس لیے برادران یوسف کا موقف یہ تھا کہ خاندان کو تحفظ دینے والی قوت ہم ہیں لیکن ہمارے والد صاحب دو کمزور اور ناتواں بچوں کو ہم سے زیادہ چاہتے ہیں۔ یہ صریح غلطی ہے۔

اہم نکات

۱۔ محبت کی کمی کا احساس ارتکاب جرم کا موجب بنتا ہے: یُوۡسُفُ وَ اَخُوۡہُ اَحَبُّ ۔۔۔۔

۲۔ حسد، ظلم کا موجب بنتا ہے۔

۳۔ اگر اولاد میں ایک دومیں امتیازات زیادہ ہوں تو ان کے درمیان محبت میں مساوات ممکن نہیں ہے۔


آیت 8