قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا مَا لَکَ لَا تَاۡمَنَّا عَلٰی یُوۡسُفَ وَ اِنَّا لَہٗ لَنٰصِحُوۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ کہنے لگے: اے ہمارے ابا جان! کیا وجہ ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتماد نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے خیر خواہ ہیں۔

11۔ 12 آیت کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب کو یوسف علیہما السلام کے بارے میں برادران پر اعتماد نہ تھا اور عدم اعتماد کی دو صورتیں ہو سکتی تھیں: ایک یہ کہ وہ یوسف علیہ السلام کے خیر خواہ نہ ہوں اور دوسری یہ کہ وہ یوسف علیہ السلام کو تحفظ نہ دے سکتے ہوں۔ برادران یوسف نے دونوں باتوں میں والد کا اعتماد بحال کرنے کی سعی کی کہ اس کے خیر خواہ ہیں اور تحفظ بھی دے سکتے ہیں۔

اَرۡسِلۡہُ مَعَنَا غَدًا یَّرۡتَعۡ وَ یَلۡعَبۡ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ﴿۱۲﴾

۱۲۔ کل اسے ہمارے ہمراہ بھیج دیجئے تاکہ کچھ کھا پی لے اور کھیل کود کرے اور ہم یقینا اس کی حفاظت کریں گے۔

قَالَ اِنِّیۡ لَیَحۡزُنُنِیۡۤ اَنۡ تَذۡہَبُوۡا بِہٖ وَ اَخَافُ اَنۡ یَّاۡکُلَہُ الذِّئۡبُ وَ اَنۡتُمۡ عَنۡہُ غٰفِلُوۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ یعقوب نے کہا : تمہارا اسے لے جانا میرے لیے حزن کا باعث ہے اور مجھے ڈر ہے اسے بھیڑیا کھا جائے اور تم اس سے غافل ہو۔

13۔ ممکن ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی طرف سے بھیڑیے کا ذکر آنے میں قدرت کا دخل ہو کہ بعد میں اسی بھیڑیے کے ذمے خون یوسف علیہ السلام ڈال دیا گیا یعنی بعد میں تراشا جانے والا عذر خود کلام یعقوب علیہ السلام میں مل گیا۔

قَالُوۡا لَئِنۡ اَکَلَہُ الذِّئۡبُ وَ نَحۡنُ عُصۡبَۃٌ اِنَّاۤ اِذًا لَّخٰسِرُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ کہنے لگے: ہم ایک جماعت ہیں اس کے باوجود اگر یوسف کو بھیڑیا کھا جائے تو ہم نقصان اٹھانے والے ٹھہریں گے۔

14۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے عدم اعتماد کا اظہار نہیں فرمایا بلکہ غفلت کے خطرے کا اظہار فرمایا تو بیٹوں نے طاقت و قوت کا اظہار کیا اور کہا: ہمارے طاقتور جماعت ہونے کے باوجود اگر یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا کھا لے تو ہم معاشرے میں اپنی حیثیت کھو دیں گے۔ بعد میں بیٹوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے اپنے اظہار کردہ خطرے کو بہانہ بنایا اور کہا ہم یوسف علیہ السلام کو سامان کے پاس چھوڑ کر کھیل کود میں لگے رہے یعنی ہم غفلت میں رہے اور یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا کھا گیا۔

فَلَمَّا ذَہَبُوۡا بِہٖ وَ اَجۡمَعُوۡۤا اَنۡ یَّجۡعَلُوۡہُ فِیۡ غَیٰبَتِ الۡجُبِّ ۚ وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡہِ لَتُنَبِّئَنَّہُمۡ بِاَمۡرِہِمۡ ہٰذَا وَ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ پس جب وہ اسے لے گئے اور سب نے اتفاق کر لیا کہ اسے گہرے کنویں میں ڈال دیں اور ہم نے یوسف کی طرف وحی کی (کہ ایک دن ایسا آئے گا) کہ آپ ان کے پاس ان کے اس فعل (شنیع) کے بارے میں انہیں ضرور بتائیں گے جبکہ انہیں اس بات کا شعور تک نہیں ہو گا۔

15۔ برادران یوسف علیہ السلام جب حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈال رہے تھے تو قدرتی طور پر یوسف علیہ السلام پریشان تھے۔ اس وقت ان پر وحی نازل ہوتی ہے کہ فکر نہ کرو، وہ وقت آنے والا ہے کہ تم ان برادران کو بتاؤ گے کہ تم نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا۔

وَ جَآءُوۡۤ اَبَاہُمۡ عِشَآءً یَّبۡکُوۡنَ ؕ﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور یہ لوگ رات کی ابتدا میں اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے ۔

قَالُوۡا یٰۤاَبَانَاۤ اِنَّا ذَہَبۡنَا نَسۡتَبِقُ وَ تَرَکۡنَا یُوۡسُفَ عِنۡدَ مَتَاعِنَا فَاَکَلَہُ الذِّئۡبُ ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُؤۡمِنٍ لَّنَا وَ لَوۡ کُنَّا صٰدِقِیۡنَ﴿۱۷﴾ ۞ؓ

۱۷۔ کہنے لگے: اے ابا جان!ہم دوڑ لگانے میں مصروف ہو گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ گئے تو اسے بھیڑیا کھا گیا اور آپ ہماری بات نہیں مانتے گو ہم سب سچے ہوں۔

وَ جَآءُوۡ عَلٰی قَمِیۡصِہٖ بِدَمٍ کَذِبٍ ؕ قَالَ بَلۡ سَوَّلَتۡ لَکُمۡ اَنۡفُسُکُمۡ اَمۡرًا ؕ فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌ ؕ وَ اللّٰہُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ چنانچہ وہ یوسف کے کرتے پر جھوٹا خون لگا کر لے آئے، یعقوب نے کہا: نہیں ، تم نے اپنے تئیں ایک بات بنائی ہے، پس میں بہت اچھے صبر کا مظاہرہ کروں گا اور جو بات تم بیان کر رہے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مطلوب ہے۔

18۔ روایات کے مطابق خود قمیص ان کے جھوٹا ہونے کی دلیل تھی۔ چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے قمیض دیکھ کر فرمایا: بڑا ہوش مند بھیڑیا ہے جس نے قمیص کو پھاڑے بغیر اس کے اندر موجود یوسف علیہ السلام کو کھا لیا، اس کا کوئی عضو تو بچا ہو گا، پس یوسف علیہ السلام کو بھیڑیے نے نہیں کھایا بلکہ تم لوگوں نے یہ بات بنا لی ہے۔

وَ جَآءَتۡ سَیَّارَۃٌ فَاَرۡسَلُوۡا وَارِدَہُمۡ فَاَدۡلٰی دَلۡوَہٗ ؕ قَالَ یٰبُشۡرٰی ہٰذَا غُلٰمٌ ؕ وَ اَسَرُّوۡہُ بِضَاعَۃً ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ پھر ایک قافلہ آیا اور انہوں نے اپنا سقا بھیجا جس نے اپنا ڈول کنویں میں ڈالا (تو یوسف آویزاں نکلے) وہ بولا: کیا خوب ! یہ تو ایک لڑکا ہے اور انہوں نے اسے تجارتی سرمایہ بنا کر چھپا لیا اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔

وَ شَرَوۡہُ بِثَمَنٍۭ بَخۡسٍ دَرَاہِمَ مَعۡدُوۡدَۃٍ ۚ وَ کَانُوۡا فِیۡہِ مِنَ الزَّاہِدِیۡنَ﴿٪۲۰﴾

۲۰۔ اور انہوں نے یوسف کو تھوڑی سی قیمت معدودے چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا اور وہ اس میں زیادہ طمع بھی نہیں رکھتے تھے۔

20۔ بائبل کے مطابق یوسف علیہ السلام کو کنویں سے نکالنے والے مدین کے سوداگر تھے۔ ان لوگوں نے یوسف علیہ السلام کو قافلے والوں کے ہاتھ فروخت کیا۔ تلمود کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام کو صرف بیس درہم میں فروخت کیا گیا۔