وَ اِنَّ کُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّہُمۡ رَبُّکَ اَعۡمَالَہُمۡ ؕ اِنَّہٗ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ﴿۱۱۱﴾

۱۱۱۔ اور بے شک آپ کا رب ان سب کے اعمال کا پورا بدلہ ضرور دے گا، وہ ان کے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔

فَاسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ وَ مَنۡ تَابَ مَعَکَ وَ لَا تَطۡغَوۡا ؕ اِنَّہٗ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۱۱۲﴾

۱۱۲۔جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ اور وہ لوگ بھی جو آپ کے ساتھ (اللہ کی طرف) پلٹ آئے ہیں ثابت قدم رہیں اور (حد سے) تجاوز بھی نہ کریں، اللہ تمہارے اعمال کو یقینا خوب دیکھنے والا ہے۔

112۔ جس عظیم انقلاب کا حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بیڑا اٹھا یا تھا وہ ایک سنگین ذمہ داری ہے۔ چونکہ یہ انقلاب ایسی قوم میں لانا مقصود تھا جو ہر اعتبار سے پسماندہ اور تمام اقدار سے نا آشنا تھی، خصوصاً جس انقلاب کی بنیاد لوگوں کے عقائد و مقدسات کو مسترد کرنے پر استوار ہو تو اسے ایک لامحدود نفرت و حقارت کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے پھر ایک مدت تک مشکلات و مصائب برداشت کرنے کے بعد توقع کی جاتی ہے کہ اب شاید فتح و ظفر کی کوئی نوید آنے والی ہے۔ اتنے میں مزید استقامت اور ثابت قدمی کا حکم زور دار الفاظ میں آتا ہے تو یہ حکم اور سنگین ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے: شیبتنی سورۃ ھود ۔ مجھے سورہ ھود نے بوڑھا کر دیا۔ (وسائل الشیعۃ 6: 172)

وَ لَا تَرۡکَنُوۡۤا اِلَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ ۙ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ اَوۡلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ﴿۱۱۳﴾

۱۱۳۔ اور جنہوں نے ظلم کیا ہے ان پر تکیہ نہ کرنا ورنہ تمہیں جہنم کی آگ چھو لے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی سرپرست نہ ہو گا پھر تمہاری کوئی مدد بھی نہیں کی جائے گی۔

113۔اسلامی سیاست و معاشرت کی ایک اہم ترین اساس ظلم و نا انصافی کی نفی ہے، اس لیے ظالموں کے ساتھ اس قسم کے تعلقات ممنوع ہو گئے جن سے ظالم کی بالادستی قائم رہتی ہو۔ ظالم پر تکیہ کرنا ظالم کے ظلم کی عملی تائید ہے۔

وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیۡلِ ؕ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ ؕ ذٰلِکَ ذِکۡرٰی لِلذّٰکِرِیۡنَ﴿۱۱۴﴾ۚ

۱۱۴۔اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں اور رات کے کچھ حصوں میں، نیکیاں بیشک برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، نصیحت ماننے والوں کے لیے یہ ایک نصیحت ہے۔

114۔ اس آیت میں دن کے دونوں سروں سے مراد بعض احادیث کے مطابق صبح اور مغرب کی نمازیں ہیں اور رات کے کچھ حصوں سے مراد عشاء کی نماز ہے۔ اس آیت میں نماز ظہرین کا ذکر نہیں ہے۔ اس کی وجہ ممکن ہے یہ ہو کہ ابتدائے تشریع نماز میں نمازوں کے اوقات یہی ہوں اور معراج کے بعد پانچ نمازیں فرض کی گئیں، جیسا کہ بعض مفسرین کہتے ہیں اور ضروری بھی نہیں کہ تمام نمازوں کا ذکر ہر جگہ ہو۔

نیکیاں برائی کو دور کر دیتی ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے: صَلَاۃُ الْمُؤْمِنِ بِاللَّیْلِ تَذْھَبُ بِمَا عَمِلَ مِنْ ذَنْبِ النَّھَارِ ۔ مومن کی رات کی نماز، دن کے گناہوں کو دور کر دیتی ہے۔ (مستدرک الوسائل 6:330)

وَ اصۡبِرۡ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۱۱۵﴾

۱۱۵۔ اور صبر کرو یقینا اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

فَلَوۡ لَا کَانَ مِنَ الۡقُرُوۡنِ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ اُولُوۡا بَقِیَّۃٍ یَّنۡہَوۡنَ عَنِ الۡفَسَادِ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّمَّنۡ اَنۡجَیۡنَا مِنۡہُمۡ ۚ وَ اتَّبَعَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مَاۤ اُتۡرِفُوۡا فِیۡہِ وَ کَانُوۡا مُجۡرِمِیۡنَ﴿۱۱۶﴾

۱۱۶۔ تم سے پہلے قوموں میں عقل و خرد والے کیوں نہیں رہے جو زمین میں فساد پھیلانے سے منع کرتے سوائے ان چند افراد کے جنہیں ہم نے ان میں سے بچا لیا تھا؟ اور ظالم لوگ ان چیزوں کے پیچھے لگے رہے جن میں عیش و نوش تھا اور وہ جرائم پیشہ لوگ تھے۔

وَ مَا کَانَ رَبُّکَ لِیُہۡلِکَ الۡقُرٰی بِظُلۡمٍ وَّ اَہۡلُہَا مُصۡلِحُوۡنَ﴿۱۱۷﴾

۱۱۷۔ اور آپ کا رب ان بستیوں کو ناحق تباہ نہیں کرتا اگر ان کے رہنے والے اصلاح پسند ہوں۔

117۔ وہ جماعت جو خیر کی طرف دعوت دے، وہ اہل ارض کے لیے امان ہے۔

وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوۡنَ مُخۡتَلِفِیۡنَ﴿۱۱۸﴾ۙ

۱۱۸۔ اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا مگر وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے۔

اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ رَبُّکَ ؕ وَ لِذٰلِکَ خَلَقَہُمۡ ؕ وَ تَمَّتۡ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ﴿۱۱۹﴾

۱۱۹۔ سوائے ان کے جن پر آپ کے رب نے رحم فرمایا ہے اور اسی کے لیے تو اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے اور تیرے رب کا وہ فیصلہ پورا ہو گیا (جس میں فرمایا تھا) کہ میں جہنم کو ضرور بالضرور جنات اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔

118۔119 آیت میں مذکور اختلاف سے مراد اختلاف در دین ہے۔ اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ رَبُّکَ استثنا ہے لَا یَزَالُوۡنَ مُخۡتَلِفِیۡنَ سے، لِذٰلِکَ اشارہ ہے رحمت کی طرف۔ لَجَعَلَ النَّاسَ میں جعل سے مراد جبر ہے۔ آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے: اگر اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی امت رہنے پر مجبور کر دیتا۔ مگر اللہ نے ایسا نہیں چاہا۔ نتیجتاً لوگ اختلاف در دین کرتے رہیں گے۔ صرف وہ لوگ اختلاف نہیں کریں گے جو اللہ کی رحمت کے اہل ہیں۔ اللہ نے لوگوں کو اسی لیے خلق کیا تھا کہ وہ اختلاف نہ کریں اور اللہ کی رحمت ان کے شامل حال رہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: خَلَقَھُمْ لِیَفْعَلُوا مَا یَسْتَوْجِبُونَ بِہِ رَحْمَتَہُ فَیَرْحَمَھُمْ ۔ (وسائل الشیعۃ 1: 84) اللہ نے انہیں اس لیے خلق فرمایا کہ وہ ایسے اعمال بجا لائیں جو موجب رحمت خدا ہوں۔ پھر اللہ ان پر رحم کرے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے: اھل الرحمۃ لا یختلفون فی الدین ۔ (بحار الانوار 24: 204) جو اہل رحمت ہیں وہ دین کے بارے میں اختلاف نہیں کرتے۔

وَ کُلًّا نَّقُصُّ عَلَیۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ ۚ وَ جَآءَکَ فِیۡ ہٰذِہِ الۡحَقُّ وَ مَوۡعِظَۃٌ وَّ ذِکۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۲۰﴾

۱۲۰۔ اور (اے رسول) ہم پیغمبروں کے وہ تمام حالات آپ کو بتاتے ہیں جن سے ہم آپ کو ثبات قلب دیتے ہیں اور ان کے ذریعے حق بات آپ تک پہنچ جاتی ہے نیز مومنین کے لیے نصیحت اور یاد دہانی ہو جاتی ہے۔

120۔ اس سورے میں تاریخ انبیاء بیان فرمانے کے بعد اس تاریخ کے بیان کے فوائد و اغراض کا بیان ہے تاکہ اس سے قلب رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ثبات ملے چونکہ گزشتہ انبیاء علیہ السلام بھی ایسے ہی نامساعد اور مشکل حالات سے دو چار رہے اور آخر میں ہمیشہ نتائج انبیا علیہ السلام کے حق میں رہے اور مخالفین نابود ہو گئے۔

وَ قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ اعۡمَلُوۡا عَلٰی مَکَانَتِکُمۡ ؕ اِنَّا عٰمِلُوۡنَ﴿۱۲۱﴾ۙ

۱۲۱۔ اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان سے کہدیجئے: تم اپنی جگہ عمل کرتے جاؤ ہم بھی عمل کرتے جائیں گے۔

وَ انۡتَظِرُوۡا ۚ اِنَّا مُنۡتَظِرُوۡنَ﴿۱۲۲﴾

۱۲۲۔ اور تم انتظار کرو ہم بھی انتظار کریں گے۔

121۔122 مطالعۂ تاریخ کے بعد جب آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دل مطمئن ہو گیا کہ آخر فتح آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہے اور آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاندین کے نصیب میں رسوائی اور نابودی ہے تو بے خوف ہو کر دو ٹوک لفظوں میں اعلان کرو: کافرو! اپنی پوری طاقت صرف کر کے جو کچھ کر سکتے ہو کرو۔ ظلم و ستم توڑتے جاؤ، تحقیر و تکذیب اور استہزاء کرتے جاؤ، طعنے دیتے جاؤ، ہم بھی پوری استقامت کے ساتھ انقلاب کا عمل جاری رکھیں گے۔ آؤ ہم دونوں اس تاریخ ساز مقابلے کے انجام کا انتظار کرتے ہیں۔

وَ لِلّٰہِ غَیۡبُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اِلَیۡہِ یُرۡجَعُ الۡاَمۡرُ کُلُّہٗ فَاعۡبُدۡہُ وَ تَوَکَّلۡ عَلَیۡہِ ؕ وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۲۳﴾٪

۱۲۳۔ اور آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا علم صرف اللہ کو ہے اور سارے امور کا رجوع اسی کی طرف ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسا کرو اور تمہارا رب تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔

123۔ اس کے بعد اس عمل اور انتظار کے انجام کے بارے میں فرمایا: انجام ان لوگوں کے حق میں ہو گا، جن کا تعلق اس ذات سے ہے جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا علم رکھتی ہے اور تمام معاملات کی بازگشت بھی اسی کی طرف ہے اور کسی کے عمل سے وہ غافل بھی نہیں ہے۔ انجام کی کامیابی کے لیے صرف اسی کی عبادت کرنی چاہیے اور صرف اسی پر توکل کرنا چاہیے۔