اِذۡ قَالَ یُوۡسُفُ لِاَبِیۡہِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ رَاَیۡتُ اَحَدَ عَشَرَ کَوۡکَبًا وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ رَاَیۡتُہُمۡ لِیۡ سٰجِدِیۡنَ﴿۴﴾
۴۔ جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا : اے بابا! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو دیکھا ہے اور سورج اور چاند کو میں نے دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔
4۔ یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام۔ آپ غالباً 1910 قبل مسیح میں فلسطین کی وادی حبرون جسے آج کل الخلیل کہتے ہیں، میں پیدا ہوئے۔ گیارہ ستاروں سے مراد حضرت یوسف کے گیارہ بھائی اور سورج چاند سے مراد آپ کے والدین ہیں اور سجدے سے مراد تعظیمی سجدہ ہے۔ آپ علیہ السلام کے زمانے کے شاہان عربی النسل تھے جو فلسطین و شام کے ساتھ مصر پر بھی حکمرانی کرتے تھے۔ عرب مؤرخ انہیں عمالیق کہتے ہیں۔ بعض مؤرخین کی تحقیقات کے مطابق حضرت یوسف، بادشاہ رع کانن کے زمانے میں مصر آ گئے، جسے عرب ریان بن ولید کا نام دیتے ہیں۔ جن لوگوں نے آپ علیہ السلام کو کنویں سے نکالا، انہوں نے آپ علیہ السلام کو مصری پولیس کے سربراہ فودطینا کے ہاتھ فروخت کیا۔ (دائرۃ المعارف فرید وجدی)
شاید یہی وجہ ہو کہ قرآن حضرت یوسف علیہ السلام کے معاصر بادشاہ کو فرعون کا نام نہیں دیتا، کیونکہ فرعون مصریوں کی مذہبی اصطلاح تھی۔
قرآنی تصریح کے مطابق خواب سے آئندہ نگری ہوتی ہے اور آنے والے واقعات جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتے، ماورائے طبیعی آنکھوں سے نظر آتے ہیں۔ یہ بات روح کے تجرد اور استقلال پر ایک دلیل بھی سمجھی جاتی ہے۔ چونکہ روح غیر مادی ہونے کی وجہ سے زمان و مکان کی حد بندی میں مقید نہیں ہوتی لہٰذا اس کے لیے حال و مستقبل، قریب و بعید میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔